[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو جائے گا۔ [8] اور پہاڑ رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے۔ [9] اور کوئی دلی دوست کسی دلی دوست کو نہیں پوچھے گا۔ [10] حالانکہ وہ انھیں دکھائے جا رہے ہوں گے۔ مجرم چاہے گا کاش کہ اس دن کے عذاب سے (بچنے کے لیے) فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو۔ [11] اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو۔ [12] اور اپنے خاندان کو، جو اسے جگہ دیا کرتا تھا۔ [13] اور ان تمام لوگوں کو جو زمین میں ہیں، پھر اپنے آپ کو بچا لے۔ [14] ہرگز نہیں! یقینا وہ (جہنم) ایک شعلہ مارنے والی آگ ہے۔ [15] منہ اور سر کی کھال کو اتار کھینچنے والی ہے۔ [16] وہ(ہر) اس شخص کو پکارے گی جس نے پیٹھ پھیری اور منہ موڑا۔ [17] اور(مال) جمع کیا اور اسے بند رکھا۔ [18] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جس دن آسمان مثل تیل کی تلچھٹ کے ہو جائے گا [8] اور پہاڑ مثل رنگین اون کے ہو جائیں گے [9] اور کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا [10] (حاﻻنکہ) ایک دوسرے کو دکھا دیئے جائیں گے، گناهگار اس دن کے عذاب کے بدلے فدیے میں اپنے بیٹوں کو [11] اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو [12] اور اپنے کنبے کو جو اسے پناه دیتا تھا [13] اور روئے زمین کے سب لوگوں کو دینا چاہے گا تاکہ یہ اسے نجات دﻻ دے [14] (مگر) ہرگز یہ نہ ہوگا، یقیناً وه شعلہ والی (آگ) ہے [15] جو منھ اور سر کی کھال کھینچ ﻻنے والی ہے [16] وه ہر اس شخص کو پکارے گی جو پیچھے ہٹتا اور منھ موڑتا ہے [17] اور جمع کرکے سنبھال رکھتا ہے [18]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جس دن آسمان ایسا ہو جائے گا جیسے پگھلا ہوا تانبا [8] اور پہاڑ (ایسے) جیسے (دھنکی ہوئی) رنگین اون [9] اور کوئی دوست کسی دوست کا پرسان نہ ہوگا [10] ایک دوسرے کو سامنے دیکھ رہے ہوں گے (اس روز) گنہگار خواہش کرے گا کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں (سب کچھ) دے دے یعنی اپنے بیٹے [11] اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی [12] اور اپنا خاندان جس میں وہ رہتا تھا [13] اور جتنے آدمی زمین میں ہیں (غرض) سب (کچھ دے دے) اور اپنے تئیں عذاب سے چھڑا لے [14] (لیکن) ایسا ہرگز نہیں ہوگا وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے [15] کھال ادھیڑ ڈالنے والی [16] ان لوگوں کو اپنی طرف بلائے گی جنہوں نے (دین حق سے) اعراض کیا [17] اور (مال) جمع کیا اور بند کر رکھا [18]۔ ........................................
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” جس عذاب کو یہ طلب کر رہے ہیں وہ عذاب ان طلب کرنے والے کافروں پر اس دن آئے گا جس دن آسمان مثل «مُهْلِ» کے ہو جائے “، یعنی زیتون کی تلچھٹ جیسا ہو جائے، ” اور پہاڑ ایسے ہو جائیں جیسے دھنی ہوئی اون “، یہی فرمان اور جگہ ہے «وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنفُوشِ»[101-القارعة:5] ۔
پھر فرماتا ہے ” کوئی قریبی رشتہ دار کسی اپنے قریبی رشتہ دار سے پوچھ گچھ بھی نہ کرے گا حالانکہ ایک دوسرے کو بری حالت میں دیکھ رہے ہوں گے لیکن خود ایسے مشغول ہوں گے کہ دوسرے کا حال پوچھنے کا بھی ہوش نہیں، سب آپا دھاپی میں پڑے ہیں “۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”ایک دوسرے کو دیکھے گا پہچانے لگا لیکن پھر بھاگ کھڑا ہو گا“، جیسے اور جگہ ہے «لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ»[80-عبس:37] یعنی ” ہر ایک ایسے مشغلے میں لگا ہوا ہو گا جو دوسرے کی طرف متوجہ ہونے کا موقعہ ہی نہ دے گا “۔
ایک اور جگہ فرمان ہے «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ»[31-لقمان:33] ” لوگو اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنی اولاد کے اور اولاد اپنے باپ کے کچھ کام نہ آئے گا “۔
اور جگہ ارشاد ہے «وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ»[35-فاطر:18] ” کوئی کسی کا بوجھ نہ بٹائے گا، گو قرابت دار ہوں “۔
اور جگہ فرمان ہے «فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاءَلُوْنَ»[23-المؤمنون:101] یعنی ” صور پھونکتے ہی سب آپس کے رشتے ناتے اور پوچھ گچھ ختم ہو جائے گی “۔
اور جگہ فرمان ہے «يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ» [80- عبس:34-37] یعنی ” اس دن انسان اپنے بھائی، ماں، باپ، بیوی اور فرزند سے بھاگتا پھرے گا “۔ ہر شخص اپنی پریشانیوں کی وجہ سے دوسرے سے غافل ہو گا، یہ وہ دن ہو گا کہ اس دن ہر گنہگار دل سے چاہے گا کہ اپنی اولاد کو اپنے فدیہ میں دے کر جہنم کے آج کے عذاب سے چھوٹ جائے اور اپنی بیوی، بھائی، اپنے رشتے کنبے، اپنے خاندان اور قبیلے کو بلکہ چاہے گا کہ تمام روئے زمین کے لوگوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے لیکن اسے آزاد کر دیا جائے۔ آہ! کیا ہی دل گداز منظر ہے کہ انسان اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو، اپنی شاخوں، اپنی جڑوں سب کو آج فدا کرنے پر تیار ہے تاکہ خود بچ جائے۔
9803
«فَصِيلَتِهِ» کے معنی ماں کے بھی کئے گئے ہیں، غرض تمام تر محبوب ہستیوں کو اپنی طرف سے بھینٹ میں دینے پر دل سے رضامند ہو گا، لیکن کوئی چیز کام نہ آئے گی کوئی بدلہ اور فدیہ نہ کھپے گا، کوئی عوض اور معاوضہ قبول نہ کیا جائے گا بلکہ اس آگ کے عذاب میں ڈالا جائے گا جو اونچے اونچے اور تیز تیز شعلے پھینکنے والی اور سخت بھڑکنے والی ہے، جو سر کی کھال تک جھلسا کر کھینچ لاتی ہے، بدن کی کھال دور کر دیتی ہے اور کھوپڑی پلپلی کر دیتی ہے، ہڈیوں کو گوشت سے الگ کر دیتی ہے، رگ پٹھے کھنچنے لگتے ہیں، ہاتھ پاؤں اینٹھنے لگتے ہیں، پنڈلیاں کٹی جاتی ہیں، چہرہ بگڑ جاتا ہے، ہر ایک عضو بدل جاتا ہے، چیخ پکار کرتا رہتا ہے، ہڈیوں کا چورا کرتی رہتی ہے، کھالیں جلائی جاتی ہے۔
یہ آگ اپنی فصیح زبان اور اونچی آواز سے اپنے والوں کو جنہوں نے دنیا میں بدکاریاں اور اللہ کی نافرمانیاں کی تھیں پکارتی ہے پھر جس طرح پرند جانور دانہ چگتا ہے اسی طرح میدان محشر میں سے ایسے بدلوگوں کو ایک ایک کر کے دیکھ بھال کر چن لیتی ہے، اب ان کی بداعمالیاں بیان ہو رہی ہیں کہ یہ دل سے جھٹلانے والے اور بدن سے عمل چھوڑ دینے والے تھے، یہ مال کو جمع کرنے والے اور سربند کر کے رکھ چھوڑنے والے تھے، اللہ تعالیٰ کے ضروری احکام میں بھی مال خرچ کرنے سے بھاگتے تھے بلکہ زکوٰۃ تک ادا نہ کرتے تھے۔
حدیث شریف میں ہے سمیٹ سمیٹ کر سینت سینت کر نہ رکھ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے روک لے گا ۔ [صحیح بخاری:1434]
عبداللہ بن حکیم رحمہ اللہ تو اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کبھی تھیلی کا منہ ہی نہ باندھتے تھے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اے ابن آدم اللہ تعالیٰ کی وعید سن رہا ہے پھر مال سمیٹتا جا رہا ہے؟“ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”مال کو جمع کرنے میں حلال حرام کا پاس نہ رکھتا تھا اور فرمان اللہ ہوتے ہوئے بھی خرچ کی ہمت نہیں کرتا تھا۔“