[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اگر وہ ہم پر کوئی بات بنا کر لگا دیتا۔ [44] تو یقینا ہم اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔ [45] پھر یقینا ہم اس کی جان کی رگ کاٹ دیتے۔ [46] پھر تم میں سے کوئی بھی( ہمیں) اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔ [47] اور بے شک یہ (قرآن) ڈرنے والوں کے لیے یقینا ایک نصیحت ہے۔ [48] اور بلاشبہ یقینا ہم جانتے ہیں کہ بے شک تم میں سے کچھ لوگ جھٹلانے والے ہیں۔ [49] اور بے شک وہ یقینا کافروں کے لیے حسرت (کا باعث) ہے۔ [50] اور بلاشبہ وہ یقینا ثابت شدہ یقین ہے۔ [51] پس اپنے بہت عظمت والے رب کے نام کی تسبیح کر۔ [52] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور اگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا [44] تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے [45] پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے [46] پھر تم میں سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے واﻻ نہ ہوتا [47] یقیناً یہ قرآن پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے [48] ہمیں پوری طرح معلوم ہے کہ تم میں سے بعض اس کے جھٹلانے والے ہیں [49] بیشک (یہ جھٹلانا) کافروں پر حسرت ہے [50] اور بیشک (و شبہ) یہ یقینی حق ہے [51] پس تو اپنے رب عظیم کی پاکی بیان کر [52]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت کوئی بات جھوٹ بنا لاتے [44] تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے [45] پھر ان کی رگ گردن کاٹ ڈالتے [46] پھر تم میں سے کوئی (ہمیں) اس سے روکنے والا نہ ہوتا [47] اور یہ (کتاب) تو پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے [48] اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے بعض اس کو جھٹلانے والے ہیں [49] نیز یہ کافروں کے لئے (موجب) حسرت ہے [50] اور کچھ شک نہیں کہ یہ برحق قابل یقین ہے [51] سو تم اپنے پروردگار عزوجل کے نام کی تنزیہ کرتے رہو [52]۔ ........................................
یہاں فرمان باری ہے کہ ” جس طرح تم کہتے ہو اگر فی الواقع ہمارے یہ رسول ایسے ہی ہوتے کہ ہماری رسالت میں کچھ کمی بیشی کر ڈالتے یا ہماری نہ کہی ہوئی بات ہمارے نام سے بیان کر دیتے تو یقیناً اسی وقت ہم انہیں بدترین سزا دیتے۔ “ یعنی ” اپنے دائیں ہاتھ سے اس کا دائیاں ہاتھ تھام کر اس کی وہ رگ کاٹ ڈالتے جس پر دل معلق ہے اور کوئی ہمارے اس کے درمیان بھی نہ آ سکتا کہ اسے بچانے کی کوشش کرے۔ “
پس مطلب یہ ہوا کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سچے پاک باز رشد و ہدایت والے ہیں اسی لیے اللہ نے زبردست تبلیغی خدمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپ رکھی ہے اور اپنی طرف سے بہت سے زبردست معجزے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق کی بہترین بڑی بڑی نشانیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت فرما رکھی ہیں۔
پھر فرمایا یہ قرآن متقیوں کے لیے تذکرہ ہے، جیسے اور جگہ ہے «قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى»[41-فصلت:44] یعنی ” کہہ دو یہ قرآن ایمانداروں کے لیے ہدایت اور شفاء ہے اور بے ایمان تو اندھے بہرے ہیں ہی۔ “
پھر فرمایا باوجود اس صفائی اور کھلے حق کے ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ تم میں سے بعض اسے جھوٹا بتلاتے ہیں، یہ تکذیب ان لوگوں کے لیے قیامت کے دن باعث حسرت و افسوس ہو گی، یا یہ مطلب کہ یہ قرآن اور اس پر ایمان حقیقتاً کفار پر حسرت کا باعث ہو گا، جیسے اور جگہ ہے «كَذَٰلِكَ سَلَكْنَاهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ»[26-الشعراء:200،201] ” اسی طرح ہم نے گناہگاروں کے دلوں میں اس انکار کو داخل کر دیا ہے وه جب تک درد ناک عذابوں کو ملاحظہ نہ کر لیں ایمان نہ لائیں گے۔“
اور جگہ ہے «وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ»[34-سبأ:54] ” ان میں اور ان کی خواہش میں حجاب ڈال دیا گیا ہے۔ “ پھر فرمایا ” یہ خبر بالکل سچ حق اور بیشک و شبہ ہے۔ “ پھر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ” اس قرآن کے نازل کرنے والے رب عظیم کے نام کی بزرگی اور پاکیزگی بیان کرتے رہو۔“