[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا، وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم راستے سے بھٹک جاؤ۔ [44] اور اللہ تمھارے دشمنوں کو زیادہ جاننے والا ہے اور اللہ کافی دوست ہے اور اللہ کافی مددگار ہے۔ [45] اس کی جگہوں سے پھیر دیتے ہیں اور کہتے ہیں سَمِعْنَاوَعَصَیْنَا(ہم نے سنا اور نہیں مانا) اور اِسْمَعْ غَیْرَمُسْمَعٍ(سن اس حال میں کہ تجھے نہ سنایا جائے) اوررَاعِنَا(ہماری رعایت کر) (یہ الفاظ) اپنی زبانوں کو پیچ دیتے ہوئے اور دین میں طعن کرتے ہوئے (کہتے ہیں) اور اگروہ سَمِعْنَاوَاَطَعْنَا(ہم نے سنا اور مانا) اور اِسْمَعْ وَانْظُرْنَا (سن اور ہماری طرف دیکھ)کہتے تو یقینا ان کے لیے بہتر اور زیادہ درست ہوتا اور لیکن اللہ نے ان پر ان کے کفر کی وجہ سے لعنت کی، پس وہ ایمان نہیں لاتے مگر بہت کم۔ [46] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا؟ جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے، وه گمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راه سے بھٹک جاؤ [44] اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو خوب جاننے واﻻ ہے اور اللہ تعالیٰ کا دوست ہونا کافی ہے اور اللہ تعالیٰ کا مددگار ہونا بس ہے [45] بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور سن اس کے بغیر کہ تو سنا جائے اور ہماری رعایت کر! (لیکن اس کے کہنے میں) اپنی زبان کو پیچ دیتے ہیں اور دین میں طعنہ دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرمانبرداری کی اور آپ سنئےاور ہمیں دیکھیئے تو یہ ان کے لئے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے انہیں لعنت کی ہے۔ پس یہ بہت ہی کم ایمان ﻻتے ہیں، [46]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی رستے سے بھٹک جاؤ [44] اور خدا تمہارے دشمنوں سے خوب واقف ہے اور خدا ہی کافی کارساز ہے اور کافی مددگار ہے [45] اور یہ جو یہودی ہیں ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور نہیں مانا اور سنیئے نہ سنوائے جاؤ اور زبان کو مروڑ کر اور دین میں طعن کی راہ سے (تم سے گفتگو) کے وقت راعنا کہتے ہیں اور اگر (یوں) کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور (صرف) اسمع اور (راعنا کی جگہ) انظرنا (کہتے) تو ان کے حق میں بہتر ہوتا اور بات بھی بہت درست ہوتی لیکن خدان نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے تو یہ کچھ تھوڑے ہی ایمان لاتے ہیں [46]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 44، 45، 46،
یہودیوں کی ایک مذموم خصلت ٭٭
اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ یہودیوں کی ایک مذموم خصلت یہ بھی ہے کہ وہ گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دیتے ہیں، نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی اس سے بھی روگردانی کرتے ہیں اور اللہ کا دیا ہوا جو علم ان کے پاس ہے اسے بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں خود اپنی کتابوں میں نبی موعود علیہ السلام کی بشارتیں پڑھتے ہیں۔
لیکن اپنے مریدوں سے چڑھاوا لینے کے لالچ میں ظاہر نہیں کرتے بلکہ ساتھ ہی یہ چاہتے ہیں کہ خود مسلمان بھی راہ راست سے بھٹک جائیں اللہ کی کتاب کے مخالف ہو جائیں ہدایت کو اور سچے علم کو چھوڑ دیں، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں سے خوب با خبر ہے وہ تمہیں ان سے مطلع کر رہا ہے کہ کہیں تم ان کے دھوکے میں نہ آ جاؤ۔ اللہ کی حمایت کافی ہے تم یقین رکھو کہ وہ اپنی طرف جھکنے والوں کی ضرور حمایت کرتا ہے وہ اس کا مددگار بن جاتا ہے۔
تیسری آیت جو لفظ «مِّنَ» سے شروع ہوئی ہے اس میں «مِّنَ» بیان جنس کے لیے ہے جیسے «فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ»[22-الحج:30] میں پھر یہودیوں کے اس فرقے کی جس تحریف کا ذکر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کلام اللہ کے مطلب کو بدل دیتے ہیں اور خلاف منشائے الٰہی تفسیر کرتے ہیں اور ان کا یہ فعل جان بوجھ کر ہوتا ہے قصداً افترا پردازی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
1735
پھر کہتے ہیں کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جو آپ نے کہا ہم نے سنا لیکن ہم ماننے کے نہیں خیال کیجئے ان کے کفر و الحاد کو دیکھئیے کہ جان کر سن کر سمجھ کر کھلے لفظوں میں اپنے ناپاک خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں آپ سنئے اللہ کرے آپ نہ سنیں۔ یا یہ مطلب کہ آپ سنئے آپ کی نہ سنی جائے لیکن پہلا مطلب زیادہ اچھا ہے۔
یہ کہنا ان کا بطور تمسخر اور مذاق کے تھا اور اللہ انہیں لعنت کرے علاوہ ازیں راعنا کہتے جس سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں ہماری طرف کان لگائے لیکن وہ اس لفظ سے مراد یہ لیتے تھے کہ تم بڑی رعونت والے ہو۔ اس کا پورا مطلب «يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ»[2-البقرة:104] کی تفسیر میں گزر چکا ہے،
مقصد یہ ہے کہ جو ظاہر کرتے تھے اس کے خلاف اپنی زبانوں کو موڑ کر طعن آمیز لہجہ میں کہتے اور حقیقی مفہوم میں اپنے دل میں مخفی رکھتے تھے دراصل یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بےادبی اور گستاخی کرتے تھے پس انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان دو معنی والے الفاظ کا استعمال چھوڑ دیں اور صاف صاف کہیں کہ ہم نے سنا اور مانا، آپ ہماری عرض سنئے! آپ ہماری طرف دیکھئیے!
یہ کہنا ہی ان کے لیے بہتر ہے اور یہی صاف سیدھی سچی اور مناسب بات ہے لیکن ان کے دل بھلائی سے دور ڈال دیئے گئے ہیں ایمان کامل طور سے ان کے دلوں میں جگہ ہی نہیں پاتا، اس جملے «فلا يؤمنون إلا قليلا» کی تفسیر بھی پہلے «فَقَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُونَ» [2-البقرة:88] میں گزر چکی ہے مطلب یہ ہے کہ نفع دینے والا ایمان ان میں نہیں۔