تفسير ابن كثير



سورۃ الملك

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ[12] وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ[13] أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ[14] هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ[15]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] یقینا جو لوگ اپنے رب سے بغیر دیکھے ڈرتے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور بڑا اجر ہے۔ [12] اور تم اپنی بات کو چھپاؤ، یا اسے بلند آواز سے کرو (برابر ہے)، یقینا وہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والاہے۔ [13] کیاوہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے اور وہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے، کامل خبر رکھنے والا ہے۔ [14] وہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو تابع بنا دیا، سو اس کے کندھوں پر چلو اور اس کے دیے ہوئے میں سے کھاؤ اور اسی کی طرف (دوبارہ) اٹھ کر جانا ہے۔ [15]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] بیشک جو لوگ اپنے پروردگار سےغائبانہ طور پر ڈرتے رہتے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور بڑا ﺛواب ہے [12] تم اپنی باتوں کو چھپاؤ یا ﻇاہر کرو وه تو سینوں کی پوشیدگی کو بھی بخوبی جانتا ہے [13] کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟ پھر وه باریک بین اور باخبر بھی ہو [14] وه ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست ومطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے [15]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (اور) جو لوگ بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے [12] اور تم (لوگ) بات پوشیدہ کہو یا ظاہر۔ وہ دل کے بھیدوں تک سے واقف ہے [13] بھلا جس نے پیدا کیا وہ بےخبر ہے؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے [14] وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم کیا تو اس کی راہوں میں چلو پھرو اور خدا کا (دیا ہو) رزق کھاؤ اور تم کو اسی کے پاس (قبروں سے) نکل کر جانا ہے [15]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 12، 13، 14، 15،

نافرمانی سے خائف ہی مستحق ثواب ہیں ٭٭

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوشخبری دے رہا ہے جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہتے ہیں، گو تنہائی میں ہوں جہاں کسی کی نگاہیں ان پر نہ پڑ سکیں۔ تاہم خوف اللہ سے کسی نافرمانی کے کام کو نہیں کرتے نہ اطاعت و عبادت سے جی چراتے ہیں، ان کے گناہ بھی معاف فرما دیتا ہے اور زبردست ثواب اور بہترین اجر عنایت فرمائے گا۔

جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جن سات شخصوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے عرش کا سایہ اس دن دے گا جس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا ان میں ایک وہ ہے جسے کوئی مال و جمال والی عورت زناکاری کی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اسے بھی جو اس طرح پوشیدگی سے صدقہ کرے کہ دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر بائیں ہاتھ کو بھی نہ لگے ۔ [صحیح بخاری:660] ‏‏‏‏

مسند بزار میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک مرتبہ کہا یا رسول اللہ! ہمارے دلوں کی جو کیفیت آپ کے سامنے ہوتی ہے، آپ کے بعد وہ نہیں رہتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بتاؤ رب کے ساتھ تمہارا کیا خیال رہتا ہے؟ جواب ملا کہ ظاہر باطن اللہ ہی کو ہم رب مانتے ہیں، فرمایا: جاؤ پھر یہ نفاق نہیں۔‏‏‏‏ [مسند ابویعلیٰ:ضعیف] ‏‏‏‏
9639

پھر فرماتا ہے کہ ” تمہاری چھپی کھلی باتوں کا مجھے علم ہے دلوں کے خطروں سے بھی آگاہ ہوں “، یہ ناممکن ہے کہ جو خالق ہو وہ عالم نہ ہو، مخلوق سے خالق بے خبر ہو، وہ تو بڑا باریک بین اور بے حد خبر رکھنے والا ہے۔

بعد ازاں اپنی نعمت کا اظہار کرتا ہے کہ ” زمین کو اس نے تمہارے لیے مسخر کر دیا وہ سکون کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے ہل جل کر تمہیں نقصان نہیں پہنچاتی، پہاڑوں کی میخیں اس میں گاڑ دی ہیں، پانی کے چشمے ان میں جاری کر دیئے ہیں، راستے اس میں مہیا کر دیئے ہیں، قسم قسم کے نفع اس میں رکھ دیئے ہیں، پھل اور اناج اس میں سے نکل رہا ہے، جس جگہ تم جانا چاہو جا سکتے ہو، طرح طرح کی لمبی چوڑی سود مند تجارتیں کر رہے ہو، تمہاری کوششیں وہ بار آور کرتا ہے اور تمہیں ان اسباب سے روزی دے رہا ہے “، معلوم ہوا کہ اسباب کے حاصل کرنے کی کوشش توکل کے خلاف نہیں۔

مسند احمد کی حدیث میں ہے اگر تم اللہ کی ذات پر پورا پورا بھرسہ کرو تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے جس طرح پرندوں کو دے رہا ہے کہ اپنے گھونسلوں سے خالی پیٹ نکلتے ہیں اور آسودہ حال واپس جاتے ہیں ۔ [سنن ترمذي:2344،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏۔

پس ان کا صبح شام آنا جانا اور رزق کو تلاش کرنا بھی توکل میں داخل سمجھا گیا کیونکہ اسباب کا پیدا کرنے والا انہیں آسان کرنے والا وہی رب واحد ہے، اسی کی طرف قیامت کے دن لوٹنا ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ «مَنَاکِبِ» سے مراد کونے اور ادھر ادھر کی جگہیں لیتے ہیں، قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ سے مروی ہے کہ مراد پہاڑ ہیں۔ بشیر بن کعب رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کی تلاوت کی اور اپنی لونڈی سے جس سے انہیں اولاد ہوئی تھی فرمایا کہ اگر «مَنَاکِبِ» کی صحیح تفسیر تم بتا دو تو تم آزاد ہو اس نے کہا اس سے مراد پہاڑ ہیں آپ نے ابودرداء رضی اللہ عنہ سے پوچھا جواب ملا کہ یہ تفسیر صحیح ہے۔
9640



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.