[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ کرو (تو بہتر ہے) کیونکہ یقینا تمھارے دل (حق سے) ہٹ گئے ہیں اور اگر تم اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو تو یقینا اللہ خود اس کا مدد گار ہے اور جبریل اور صالح مومن اور اس کے بعد تمام فرشتے مددگار ہیں۔ [4] اس کا رب قریب ہے، اگر وہ تمھیں طلاق دے دے کہ تمھارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے، جو اسلام والیاں، ایمان والیاں، اطاعت کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں ہوں، شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں۔ [5] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] (اے نبی کی دونوں بیویو!) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کارساز اللہ ہے اور جبریل ہیں اور نیک اہل ایمان اور ان کے علاوه فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں [4] اگر وه (پیغمبر) تمہیں طلاق دے دیں تو بہت جلد انہیں ان کا رب! تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائے گا، جو اسلام والیاں، ایمان والیاں اللہ کے حضور جھکنے والیاں توبہ کرنے والیاں، عبادت بجا ﻻنے والیاں روزے رکھنے والیاں ہوں گی بیوه اور کنواریاں [5]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اگر تم دونوں خدا کے آگے توبہ کرو (تو بہتر ہے کیونکہ) تمہارے دل کج ہوگئے ہیں۔ اور اگر پیغمبر (کی ایذا) پر باہم اعانت کرو گی تو خدا اور جبریل اور نیک کردار مسلمان ان کے حامی (اور دوستدار) ہیں۔ اور ان کے علاوہ (اور) فرشتے بھی مددگار ہیں [4] اگر پیغمبر تم کو طلاق دے دیں تو عجب نہیں کہ ان کا پروردگار تمہارے بدلے ان کو تم سے بہتر بیبیاں دے دے۔ مسلمان، صاحب ایمان فرمانبردار توبہ کرنے والیاں عبادت گذار روزہ رکھنے والیاں بن شوہر اور کنواریاں [5]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 4، 5،
باب
یہ بھی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ عورتوں کے بارے میں اس مشقت میں کیوں پڑتے ہیں؟ اگر آپ انہیں طلاق بھی دے دیں تو آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے، جبرائیل علیہ السلام، میکائیل علیہ السلام اور میں اور ابوبکر اور جملہ مومن ہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: الحمداللہ! میں اس قسم کی جو بات کہتا مجھے امید لگی رہتی کہ اللہ تعالیٰ میری بات کی تصدیق نازل فرمائے گا، پس اس موقعہ پر بھی آیت تخییر یعنی «عَسَى رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا»[66-التحريم:5] اور «وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ»[66-التحريم:4] ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں، مجھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی تو میں نے مسجد میں آ کر دروازے پر کھڑا ہو کر اونچی آواز سے سب کو اطلاع دے دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی۔
اسی کے بارے میں آیت «وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ»[4-النساء:83] آخر تک اتری یعنی ” جہاں انہیں کوئی امن کی یا خوف کی خبر پہنچی کہ یہ اسے شہرت دینے لگتے ہیں اگر یہ اس خبر کو رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یا ذی عقل و علم مسلمانوں تک پہنچا دیتے تو بیشک ان میں سے جو لوگ محقق ہیں وہ اسے سمجھ لیتے “۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہاں تک اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ”پس اس امر کا استنباط کرنے والوں میں سے میں ہوں“، اور بھی بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے کہ «صالح المؤمنین» سے مراد سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر رضی اللہ عنہما ہیں، بعض نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا نام بھی لیا لیا ہے بعض نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا۔ ایک ضعیف حدیث میں مرفوعاً صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام ہے لیکن سند ضعیف ہے اور بالکل منکر ہے۔
9605
عمر اور موافقت قرانی ٭٭
صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں غیرت میں آ گئیں جس پر میں نے ان سے کہا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں طلاق دے دیں گے تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے گا، پس میرے لفظوں ہی میں قرآن کی یہ آیت اتری [صحیح بخاری:4916]
پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بہت سی باتوں میں قرآن کی موافقت کی جیسے پردے کے بارے میں، بدری قیدیوں کے بارے میں، مقام ابراہیم کو قبلہ ٹھہرانے کے بارے میں، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ مجھے جب امہات المؤمنین رضی اللہ عنھن کی اس رنجش کی خبر پہنچی تو ان کی خدمت میں میں گیا اور انہیں بھی کہنا شروع کیا یہاں تک کہ آخری ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا تو مجھے جواب ملا کہ کیا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود نصیحت کرنے کے لیے کم ہیں جو تم آ گئے؟ اس پر میں خاموش ہو گیا لیکن قرآن میں آیت «عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا»[66-التحریم:5] نازل ہوئی۔
صحیح بخاری میں ہے کہ جواب دینے والی ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔ [صحیح بخاری:4913]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چپکے سے اپنی بیوی صاحبہ سے کہی تھی اس کا واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی گھر میں تھے وہ تشریف لائیں اور سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا سے آپ کو مشغول پایا تو آپ نے انہیں فرمایا: ”تم عائشہ کو خبر نہ کرنا، میں تمہیں ایک بشارت سناتا ہوں میرے انتقال کے بعد میری خلافت ابوبکر کے بعد تمہارے والد آئیں گے۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو خبر کر دی پس سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اس کی خبر آپ کو کس نے پہنچائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے علیم و خبیر اللہ نے خبر پہنچائی“، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں آپ کی طرف نہ دیکھوں گی جب تک آپ ماریہ کو اپنے اوپر حرام نہ کر لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کر لی اس پر آیت «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ»[66-التحريم:1] ، نازل ہوئی ۔ [طبرانی کبیر:12640:ضعیف] لیکن اس کی سند مخدوش ہے، مقصد یہ ہے کہ ان تمام روایات سے ان پاک آیتوں کی تفسیر ظاہر ہو گئی۔
«مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ» کی تفسیر تو ظاہر ہی ہے۔ «سَائِحَاتٍ» کی تفسیر ایک تو یہ ہے کہ روزے رکھنے والیاں ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی تفسیر اس لفظ کی آئی ہے جو حدیث سورۃ برات کے اس لفظ کی تفسیر میں گزر چکی ہے کہ اس امت کی سیاحت روزے رکھنا ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:508/14] دوسری تفسیر یہ ہے کہ مراد اس ہجرت کرنے والیاں، لیکن اول قول ہی اولیٰ ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
9606
جنت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ٭٭
پھر فرمایا ” ان میں سے بعض بیوہ ہوں گی اور بعض کنواریاں اس لیے کہ جی خوش رہے “، قسموں کی تبدیلی نفس کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔
معجم طبرانی میں ابن یزید رحمہ اللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت میں جو وعدہ فرمایا ہے اس سے مراد بیوہ سے تو سیدہ آسیہ علیہ السلام ہیں جو فرعون کی بیوی تھیں اور کنواری سے مراد سیدہ مریم علیہ السلام ہیں جو عمران کی بیٹی تھیں۔
ابن عساکر میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اس وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہیں خوشی ہو جنت کے ایک چاندی کے گھر کی جہاں نہ گرمی ہے، نہ تکلیف ہے، نہ شورو غل جو چھیدے ہوئے موتی کا بنا ہوا ہے جس کے دائیں بائیں مریم بنت عمران علیہا السلام اور آسیہ بنت مزاحم علیہا السلام کے مکانات ہیں۔ [ابن عساکر فی تاریخ دمشق،543/19:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے خدیجہ! اپنی سوکنوں سے میرا سلام کہنا۔“ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! کیا مجھ سے پہلے بھی کسی سے نکاح کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون اور کلثوم بہن موسیٰ کی ان تینوں کو میرے نکاح میں دے رکھا ہے“۔ [ابن عساکر فی تاریخ دمشق،543/19:ضعیف] یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔
ابوامامہ سے ابو یعلیٰ میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے جنت میں میرا نکاح مریم بنت عمران، کلثوم اخت موسیٰ اور آسیہ زوجہ فرعون سے کر دیا ہے“، میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ کو مبارک ہو ۔ [ابن عدی فی الکامل،180/7:ضعیف] یہ حدیث بھی ضعیف ہے اور ساتھ ہی مرسل بھی ہے۔