تفسير ابن كثير



سورۃ النساء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا[30]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جو زیادتی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو عنقریب ہم اسے سخت ہولناک آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ پر ہمیشہ سے بہت آسان ہے۔ [30]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جو شخص یہ (نافرمانیاں) سرکشی اور ﻇلم سے کرے گا تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ پرآسان ہے [30]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جو تعدی اور ظلم سے ایسا کرے گا ہم اس کو عنقریب جہنم میں داخل کریں گے اور یہ خدا کو آسان ہے [30]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 30،

احترام زندگی ٭٭

مسند احمد میں ہے کہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ذات السلاسل والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا آپ فرماتے ہیں مجھے ایک رات احتلام ہو گیا سردی بہت سخت تھی یہاں تک کہ مجھے نہانے میں اپنی جان جانے کا خطرہ ہو گیا تو میں نے تیمم کر کے اپنی جماعت کو صبح کی نماز پڑھا دی جب وہاں سے ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس حاضر ہوئے تو میں نے یہ واقعہ کہہ سنایا آپ نے فرمایا کیا تو نے اپنے ساتھیوں کو جنبی ہونے کی حالت میں نماز پڑھا دی؟ میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاڑا سخت تھا اور مجھے اپنی جان جانے کا اندیشہ تھا تو مجھے یاد پڑا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اپنے تئیں ہلاکت نہ کر ڈالو اللہ رحیم ہے پس میں نے تیمم کر کے نماز صبح پڑھا دی تو آپ ہنس دئیے اور مجھے کچھ نہ فرمایا۔ [سنن ابوداود:334،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ایک روایت میں ہے کہ اور لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تب آپ کے دریافت کرنے پر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا۔ (‏‏‏‏ضعیف جداً: اس کی سند میں یوسف بن خالد راوی سخت ضعیف ہے۔)
1637

بخاری و مسلم میں ہے جو شخص کسی لوہے سے خودکشی کرے گا وہ قیامت تک جہنم کی آگ میں لوہے سے خودکشی کرتا رہے گا، اور جو جان بوجھ کر مر جانے کی نیت سے زہر کھا لے گا۔ [صحیح بخاری:5778] ‏‏‏‏

وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں زہر کھاتا رہے گا اور روایت میں ہے کہ جو شخص اپنے تئیں جس چیز سے قتل کرے گا وہ قیامت والے دن اسی چیز سے عذاب کیا جائے گا۔ [صحیح بخاری:1363] ‏‏‏‏

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم سے پہلے کے لوگوں میں سے ایک شخص کو زخم لگے اس نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا تمام خون بہ گیا اور وہ اسی میں مر گیا تو اللہ عزوجل نے فرمایا: میرے بندے نے اپنے تئیں فنا کرنے میں جلدی کی اسی وجہ سے میں نے اس پر جنت کو حرام کیا۔ [صحیح بخاری:1364] ‏‏‏‏

اسی لیے اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے جو شخص بھی ظلم و زیادتی کے ساتھ حرام جانتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے دلیرانہ طور سے حرام پر کار بند رہے وہ جہنمی ہے، پس ہر عقلمند کو اس سخت تنبیہہ سے ڈرنا چاہیئے دل کے کان کھول کر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سن کر حرام کاریوں سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
1638

پھر فرماتا ہے کہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے تو ہم تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف فرما دیں گے اور تمہیں جنتی بنادیں گے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اس طرح کی کوئی سخت وعید نہیں ملی جس کی تعمیل میں تمہیں اپنے اہل و مال سے الگ ہو جانا چاہیئے پھر ہم اس کے لیے اپنے اہل و مال سے جدا نہ ہو جائیں کہ وہ ہمارے کبیرہ گناہوں کو ہمارے چھوٹے موٹے گناہوں سے معاف فرماتا ہے پھر اس آیت کی تلاوت کی۔

اس آیت کے متعلق بہت سی حدیثیں بھی ہیں تھوڑی بہت ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔

مسند احمد میں سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے باپ کو پیدا کیا آپ نے فرمایا: مگر اب جو میں جانتا ہوں وہ بھی سن لو جو شخص اس دن اچھی طرح غسل کر کے نماز جمعہ کے لیے مسجد میں آئے اور نماز ختم ہونے تک خاموش رہے تو اس کا یہ عمل اگلے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے جب تک کہ وہ قتل سے بچا۔‏‏‏‏ [مسند احمد:5/439،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

ابن جریر میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سناتے ہوئے فرمایا: اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تین مرتبہ یہی فرمایا پھر سر نیچا کر لیا ہم نے بھی سر نیچا کر لیا اور ہم سب رونے لگے ہمارے دل کانپنے لگے کہ اللہ جانے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کے لیے قسم کھائی ہے اور پھر کیوں خاموشی اختیار کی ہے؟ تھوڑی دیر کے بعد آپ نے سر اٹھایا اور آپ کا چہرہ بشاش تھا جس سے ہم اس قدر خوش ہوئے کہ اگر ہمیں سرخ رنگ کے اونٹ ملتے تو اس قدر خوش نہ ہوتے، اب آپ فرمانے لگے جو بندہ پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، زکوٰۃ ادا کرتا رہے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچا رہے اس کے لیے جنت کے سب دروازے کھل جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ اس میں داخل ہو جاؤ۔ [سنن نسائی:2440،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏
1639

سات کبیرہ گناہ ٭٭

جن سات گناہوں کا اس میں ذکر ہے ان کی تفصیل بخاری مسلم میں اس طرح ہے گناہوں سے بچو جو ہلاک کرنے والے ہیں پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون سے گناہ ہیں؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور جس کا قتل حرام ہو اسے قتل کرنا ہاں کسی شرعی وجہ سے اس کا خون حلال ہو گیا ہو تو اور بات ہے۔ جادو کرنا، سود کھانا اور یتیم کا مال کھانا اور میدان جنگ سے کفار کے مقابلے میں پیٹھ دکھانا اور بھولی بھالی پاک دامن مسلمان عورتوں کو تہمت لگانا۔ [صحیح بخاری:2766] ‏‏‏‏

ایک روایت میں جادو کے بدلے ہجرت کر کے پھر واپس اپنے دیس میں قیام کر لینا ہے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:5202/3] ‏‏‏‏

یہ یاد رہے کہ ان سات گناہوں کو کبیرہ کہنے سے یہ مطلب نہیں کہ کبیرہ گناہ صرف یہی ہیں جیسے کہ بعض اور لوگوں کا خیال ہے جن کے نزدیک مفہوم مخالف معتبر ہے۔ دراصل یہ بہت انتہائی بےمعنی قول اور غلط اصول ہے بالخصوص اس وقت جبکہ اس کے خلاف دلائل موجود ہوں اور یہاں تو صاف لفظوں میں اور کبیرہ گناہوں کا بھی ذکر موجود ہے۔ مندرجہ ذیل حدیثیں ملاحظہ ہوں۔

مستدرک حاکم میں ہے کہ حجتہ الوداع میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو سن لو اللہ تعالیٰ کے ولی صرف نمازی ہی ہیں جو پانچوں وقت کی فرض نمازوں کو باقاعدہ بجا لاتے ہیں جو رمضان شریف کے روزے رکھتے ہیں، فرض جان کر اور ثواب حاصل کرنے کی نیت رکھ کر ہنسی خوشی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور ان تمام کبیرہ گناہوں سے دور رہتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ہے۔ ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ ! وہ کبیرہ گناہ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: شرک، قتل، میدان جنگ سے بھاگنا، مال یتیم کھانا، سود خوری، پاکدامنوں پر تہمت لگانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، بیت اللہ الحرام کی حرمت کو توڑنا جو زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے سنو جو شخص مرتے دم تک ان بڑے گناہوں سے اجتناب کرتا رہے اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرتا رہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں سونے کے محلوں میں ہو گا۔ [سنن نسائی:4017،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏
1640

طیسلہ بن میامن فرماتے ہیں مجھ سے ایک گناہ ہو گیا جو میرے نزدیک کبیرہ تھا، میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: وہ کبیرہ گناہ نہیں کبیرہ گناہ نو ہیں۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا کسی کو بلا وجہ مار ڈالنا، میدان جنگ میں دشمنان دین کو پیٹھ دکھانا، پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانا، سود کھانا، یتیم کا مال ظلم سے کھا جانا، مسجد الحرام میں الحاد پھیلانا اور ماں باپ کو نافرمانی کے سبب رلانا، طیسلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بیان کے بعد بھی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے محسوس کیا کہ خوف کم نہیں ہوا تو فرمایا کیا تمہارے دل میں جہنم کی آگ میں داخل ہونے کا ڈر اور جنت میں جانے کی چاہت ہے؟ میں نے کہا بہت زیادہ فرمایا کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ میں نے کہا صرف والدہ حیات ہیں، فرمایا: بس تم ان سے نرم کلامی سے بولا کرو اور انہیں کھانا کھلاتے رہا کرو اور ان کبیرہ گناہوں سے بچتے رہا کرو تو تم یقیناً جنت میں جاؤ گے اور روایت میں ہے کہ طیسلہ بن علی نہدی، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے میدان عرفات میں عرفہ کے دن پیلو کے درخت تلے ملے تھے اس وقت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما اپنے سر اور چہرے پر پانی بہا رہے تھے اس میں یہ بھی ہے کہ جب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے تہمت لگانے کا ذکر کیا تو میں نے پوچھا کیا یہ بھی مثل قتل کے بہت بڑا گناہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ہاں اور ان گناہوں کے ذکر میں جادو کا ذکر بھی ہے۔ [:تفسیر ابن جریر الطبری:9189:ضعیف] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ میری ان کی ملاقات شام کے وقت ہوئی تھی اور میں نے ان سے کبائر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ کبائر سات ہیں میں نے پوچھا کیا کیا؟ تو فرمایا: شرک اور تہمت لگانا میں نے کہا کیا یہ بھی مثل خون ناحق کے ہے؟ فرمایا: ہاں ہاں اور کسی مومن کو بےسبب مار ڈالنا، لڑائی سے بھاگنا، جادو اور سود خوری، مال یتیم کھانا، والدین کی نافرمانی اور بیت اللہ میں الحاد پھیلانا جو زندگی میں اور موت میں تمہارا قبلہ ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:9189:ضعیف] ‏‏‏‏
1641

مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ کا بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے نماز قائم رکھے زکوٰۃ ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اور کبیرہ گناہوں سے بچے وہ جنتی ہے، ایک شخص نے پوچھا کبائر کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا مسلمان کو قتل کرنا لڑائی والے دن بھاگ کھڑا ہونا۔‏‏‏‏ [مسند احمد:5/413:حسن بالشواھد] ‏‏‏‏

ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کو ایک کتاب لکھوا کر بھجوائی جس میں فرائض اور سنن کی تفصیلات تھیں دیت یعنی جرمانوں کے احکام تھے اور یہ کتاب سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اہل یمن کو بھجوائی گئی تھی اس کتاب میں یہ بھی تھا کہ قیامت کے دن تمام کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ انسان اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرے اور ایماندار شخص کا قتل بغیر حق کے کرنا اور اللہ کی راہ میں جہاد کے میدان میں جا کر لڑتے ہوئے نامردی سے جان بچانے کی خاطر بھاگ کھڑا ہونا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور ناکردہ گناہ عورتوں پر الزام لگانا اور جادو سیکھنا اور سود کھانا اور مال یتیم برباد کرنا۔ [مستدرک حاکم:395/1، حسن بالشواھد] ‏‏‏‏

ایک اور روایت میں کبیرہ گناہوں کے بیان میں جھوٹی بات یا جھوٹی شہادت بھی ہے [صحیح بخاری:5977] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے کہ کبیرہ گناہوں کے بیان کے وقت آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے لیکن جب یہ بیان فرمایا کہ جھوٹی گواہی اور جھوٹی بات اس وقت آپ تکیے سے ہٹ گئے اور بڑے زور سے اس بات کو بیان فرمایا اور باربار اسی کو دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے دل میں سوچا کاش اب آپ نہ دہرائیں۔ [صحیح بخاری:2654] ‏‏‏‏

بخاری مسلم میں ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک کرے یہ جانتے ہوئے کہ تجھے صرف اسی نے پیدا کیا ہے؟ میں نے پوچھا اس کے بعد؟ فرمایا: یہ کہ تو اپنے بچے کو اس ڈر سے قتل کر دے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گا، میں نے پوچھا پھر کون سا گناہ بڑا ہے؟ فرمایا: یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے بدکاری کرے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ «وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا» * «يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا» * «إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَحِيمًا» [25-الفرقان:68 تا 70] ‏‏‏‏ تک پڑھی۔
1642

ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن رضی اللہ عنہ مسجد الحرام میں حطیم کے اندر بیٹھے ہوئے تھے جو ایک شخص نے شراب کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: مجھ جیسا بوڑھا بڑی عمر کا آدمی اس جگہ بیٹھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بول سکتا شراب کا پینا تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے؟ یہ کام تمام خباثتوں کی ماں ہے شرابی تارک نماز ہوتا ہے وہ اپنی ماں اور خالہ اور پھوپھی سے بھی بدکاری کرنے سے نہیں چوکتا۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:5197/3،حسن] ‏‏‏‏ یہ حدیث غریب ہے۔

ابن مردویہ میں ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما اور دوسرے بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک مرتبہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے وہاں کبیرہ گناہوں کا ذکر نکلا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ تو کسی کے پاس مصدقہ جواب نہ تھا اس لیے انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو بھیجا کہ تم جا کر سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے دریافت کر آؤ میں گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ سب سے بڑا گناہ شراب پینا ہے میں نے واپس آ کر اس مجلس میں یہ جواب سنا دیا اس پر اہل مجلس کو تسکین نہ ہوئی اور سب حضرات اٹھ کر سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کے گھر چلے اور خود ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک واقعہ بیان کیا کہ بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک نے ایک شخص کو گرفتار کیا پھر اس سے کہا کہ یا تو تو اپنی جان سے ہاتھ دھو ڈال یا ان کاموں میں سے کسی ایک کو کر یعنی یا تو شراب پی یا خون ناحق کر یا زنا کر یا سور کا گوشت کھا اس غور و تفکر کے بعد اس نے جان جانے کے ڈر سے شراب کو ہلکی چیز سمجھ کر پینا منظور کر لیا جب شراب پی لی تو پھر نشہ میں وہ ان تمام کاموں کو کر گزرا جن سے وہ پہلے رکا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ گوش گزار فرما کر ہم سے فرمایا جو شخص شراب پیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی نمازیں چالیس رات تک قبول نہیں فرماتا اور جو شراب پینے کی عادت میں ہی مر جائے اور اس کے مثانہ میں تھوڑی سی شراب ہو اس پر اللہ جنت کو حرام کر دیتا ہے۔ اگر شراب پینے کے بعد چالیس راتوں کے اندر اندر مرے تو اس کی موت جاہلیت کی موتی ہوتی ہے۔ [:مستدرک حاکم:147/4،حسن] ‏‏‏‏ یہ حدیث غریب ہے،

ایک اور حدیث میں جھوٹی قسم کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے۔ [صحیح بخاری:6675] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم میں جھوٹی قسم کے بیان کے بعد یہ فرمان بھی ہے کہ جو شخص اللہ کی قسم کھا کر کوئی بات کہے اور اس نے مچھر کے پر برابر زیادتی کی اس کے دل میں ایک سیاہ داغ ہو جاتا ہے جو قیامت تک باقی رہتا ہے۔ [سنن ترمذي:3020،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏
1643

ابن ابی حاتم میں ہے کہ انسان کا اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے لوگوں نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماں باپ کو کیسے گالی دے گا؟ آپ نے فرمایا: اس طرح کہ اس نے دوسرے کے باپ کو گالی دی اس نے اس کے باپ کو اس نے اس کی ماں کو برا کہا اس نے اس کی ماں کو۔‏‏‏‏ [صحیح بخاری:5973] ‏‏‏‏

صحیح بخاری میں ہے سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ پر لعنت کرے لوگوں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے فرمایا: دوسرے کے ماں باپ کو کہہ کر اپنے ماں باپ کو کہلوانا۔‏‏‏‏ [صحیح بخاری:5973] ‏‏‏‏

صحیح حدیث میں ہے مسلمان کو گالی دینا فاسق بنا دیتا ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔ [صحیح بخاری:48] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم میں ہے کہ اکبر الکبائر یعنی تمام کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرنا ہے اور ایک گالی کے بدلے دو گالیاں دینا ہے۔ [سنن ابوداود:4877،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏
1644

ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے دو نمازوں کو عذر کے بغیر جمع کیا وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں گھسا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي:4877،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کتاب جو ہمارے سامنے پڑھی گئی اس میں یہ بھی تھا کہ دو نمازوں کو بغیر شرعی عذر کے جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے، اور لڑائی کے میدان سے بھاگ کھڑا ہونا اور لوٹ کھسوٹ کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے، الغرض ظہر عصر یا مغرب عشاء پہلے وقت یا پچھلے وقت بغیر کسی شرعی رخصت کے جمع کر کے پڑھنا کبیرہ گناہ ہے۔ پھر جو شخص کہ بالکل ہی نہ پڑھے اس کے گناہ کا تو کیا ٹھکانہ ہے؟

چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ بندے اور شرک کے درمیان نماز کا چھوڑ دینا ہے۔ [صحیح مسلم:82] ‏‏‏‏

سنن کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم میں اور کافر میں فرق کرنے والی چیز نماز کا چھوڑ دینا ہے، جس نے اسے چھوڑا اس نے کفر کیا۔ [سنن ترمذي:2621،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

اور روایت میں آپ کا یہ فرمان بھی منقول ہے کہ جس نے عصر کی نماز ترک کر دی اس کے اعمال غارت ہوئے [صحیح بخاری:553] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے جس سے عصر کی نماز فوت ہوئی گویا اس کا مال اس کا اہل و عیال بھی ہلاک ہو گئے۔ [صحیح بخاری:552] ‏‏‏‏
1645

ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کبیرہ گناہ کیا کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، اللہ کی نعمت اور اس کی رحمت سے ناامید ہونا اور اس کی خفیہ تدبیروں سے بےخوف ہو جانا اور یہ سب سے بڑا گناہ ہے [تفسیر ابن ابی حاتم:5201/3،حسن] ‏‏‏‏

اسی کے مثل ایک روایت اور بھی بزار میں مروی ہے لیکن زیادہ ٹھیک یہ ہے کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔

ابن مردویہ میں ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سب سے کبیرہ گناہ اللہ عزوجل کے ساتھ بدگمانی کرنا ہے۔ [فتح الباری:411/10،ضعیف] ‏‏‏‏ یہ روایت بہت ہی غریب ہے، پہلے وہ حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں ہجرت کے بعد کفرستان میں آ کر بسنے کو بھی کبیرہ گناہ فرمایا ہے، یہ حدیث ابن مردویہ میں ہے، سات کبیرہ گناہوں میں اسے بھی گنا گیا ہے۔ [:تفسیر ابن جریر الطبری:9180،ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن اس کی اسناد میں اختلاف ہے اور اسے مرفوع کہنا بالکل غلط ہے ٹھیک بات وہی ہے جو تفسیر ابن جریر میں مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوفے کی مسجد میں ایک مرتبہ منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ سنا رہے تھے جس میں فرمایا: لوگو کبیرہ گناہ سات ہیں اسے سن کر لوگ چیخ اٹھے آپ نے اسی کو پھر دوہرایا پھر دوہرایا پھر فرمایا: تم مجھ سے ان کی تفصیل کیوں نہیں پوچھتے؟ لوگوں نے کہا: امیر المؤمنین فرمائیے وہ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے مار ڈالنا پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانا یتیم کا مال کھانا سود خوری کرنا لڑائی کے دن پیٹھ دکھانا اور ہجرت کے بعد پھر دارالکفر میں آ بسنا۔ راوی حدیث محمد بن سہل رحمہ اللہ نے اپنے والد سہل بن خیثمہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اسے کبیرہ گناہوں میں کیسے داخل کیا تو جواب ملا کہ پیارے بچے اس سے بڑھ کر ستم کیا ہو گا؟ کہ ایک شخص ہجرت کر کے مسلمانوں میں ملے مال غنیمت میں اس کا حصہ مقرر ہو جائے مجاہدین میں اس کا نام درج کر دیا جائے پھر وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر اعرابی بن جائے اور دارالکفر میں چلا جائے اور جیسا تھا ویسا ہی ہو جائے۔
1646

مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا خبردارہو جاو وہ چار ہیں خبردار اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو خون ناحق سے بچو (‏‏‏‏ہاں شرعی اجازت اور چیز ہے)‏‏‏‏‏‏‏‏ زناکاری نہ کرو چوری نہ کرو۔ [مسند احمد:339/4،حسن] ‏‏‏‏

وہ حدیث پہلے گزر چکی ہے جس میں ہے کہ وصیت کرنے میں کسی کو نقصان پہنچانا بھی کبیرہ گناہ ہے- [دارقطنی:151/4،ضعیف] ‏‏‏‏

ابن جریر میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک مرتبہ کبیرہ گناہوں کو دہرایا کہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا یتیم کا مال کھانا لڑائی سے بھاگ کھڑا ہونا، پاکدامن بےگناہ عورتوں پر تہمت لگانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، خیانت کرنا، جادو کرنا، سود کھانا یہ سب کبیرہ گناہ ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور اس گناہ کو کیا کہو گے؟ جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے پھرتے ہیں آخر آیت تک آپ نے تلاوت کی۔ اس کی اسناد میں ضعف ہے۔ [:تفسیر ابن جریر الطبری:9227،ضعیف] ‏‏‏‏ اور یہ حدیث حسن ہے، پس ان تمام احادیث میں کبیرہ گناہوں کا ذکر موجود ہے۔
1647

اب اس بارے میں سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے جو اقوال ہیں وہ ملاحظہ ہوں، ابن جریر میں منقول ہے چند لوگوں نے مصر میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ بہت سی باتیں کتاب اللہ میں ہم ایسی پاتے ہیں کہ جن پر ہمارا عمل نہیں اس لیے ہم امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں دریافت کرنا چاہتے ہیں، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ انہیں لے کر مدینہ آئے اپنے والد سے ملے آپ نے پوچھا کب آئے ہو؟ جواب دیا کہ چند دن ہوئے۔ پوچھا اجازت سے آئے ہو؟ اس کا بھی جواب دیا پھر اپنے ساتھ آنے والے لوگوں کا ذکر اور مقصد بیان کیا۔ آپ نے فرمایا انہیں جمع کرو سبھی کو ان کے پاس لائے اور ان میں سے ہر ایک کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تجھے اللہ اور اسلام حق کی قسم بتاؤ تم نے پورا قرآن کریم پڑھا ہے؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا تو نے اسے اپنے دل میں محفوظ کر لیا ہے اس نے کہا نہیں اور اگر ہاں کہتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے کماحقہ دلائل سے عاجز کر دیتے پھر فرمایا کیا تم سب نے قرآن حکیم کے مفہوم کو نگاہوں میں زبان میں اور اعمال میں ڈھال لیا ہے پھر ایک ایک سے یہی سوال کیا پھر فرمایا تم عمر کو اس مشقت میں ڈالنا چاہتے ہو کہ لوگوں کو بالکل کتاب اللہ کے مطابق ہی ٹھیک ٹھاک کر دے، ہمارے رب کو پہلے سے ہی ہماری خطاؤں کا علم تھا۔
1648

پھر آپ نے آیت «إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا» [4-النساء:31] ‏‏‏‏ کی تلاوت کی۔

پھر فرمایا کیا اہل مدینہ کو تمہارے آنے کا مقصد معلوم ہے؟ انہوں نے کہا نہیں فرمایا اگر انہیں بھی اس کا علم ہوتا تو مجھے اس بارے میں انہیں بھی وعظ کرنا پڑتا۔ اس کی اسناد حسن ہے اور متن بھی حسن ہے گو یہ روایت حسن رحمہ اللہ کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہے جس میں انقطاع ہے لیکن اتنے سے نقصان کو اس کی پوری شہرت کافی ہے۔

ابن ابی حاتم میں ہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ شریک کرنا، کسی کو مار ڈالنا، یتیم کا مال کھانا، پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانا، لڑائی سے بھاگ جانا، ہجرت کے بعد دارالکفر میں قیام کر لینا، جادو کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، سود کھانا، جماعت سے جدا ہونا، خرید و فروخت کا عہد توڑ دینا۔

پہلے گزر چکا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بڑے سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کشادگی سے مایوس ہونا اور اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا ہے اور اللہ عزوجل کی پوشیدہ تدبیروں سے بیخوف ہونا ہے۔
1649

ابن جریر میں آپ ہی سے روایت ہے کہ سورۃ نساء کی شروع آیت سے لے کر تیس آیتوں تک کبیرہ گناہ کا بیان ہے پھر آپ نے «إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا» [4-النساء:31] ‏‏‏‏ کی تلاوت کی۔

سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کو ناخوش کرنا، آسودگی کے بعد کے بچے ہوئے پانی کو حاجت مندوں سے روک رکھنا، اپنے پاس کے نر جانور کو کسی کی مادہ کے لیے بغیر کچھ لیے نہ دینا۔

بخاری و مسلم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے بچا ہوا پانی نہ روکا جائے اور نہ بچی ہوئی گھاس روکی جائے۔ [صحیح بخاری:2353] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے تین قسم کے گنہگاروں کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہیں ایک وہ شخص جو جنگل میں بچے ہوئے پانی پر قبضہ کر کے مسافروں کو اس سے روکے۔ [صحیح بخاری:2358] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے جو شخص زائد پانی کو اور زائد گھاس کو روک رکھے اللہ قیامت کے دن اس پر اپنا فضل نہیں کرے گا۔ [مسند احمد:221/2،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏
1650

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کبیرہ گناہ وہ ہیں جو عورتوں سے بیعت لینے کے ذکر میں بیان ہوئے ہیں یعنی «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّـهَ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ» [60-الممتحنة:12] ‏‏‏‏ میں۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ اس آیت کو اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان احسانوں میں بیان فرماتے ہیں اور اس پر بڑی خوشنودی کا اظہار فرماتے ہیں یعنی «إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا» [4-النساء:31] ‏‏‏‏ کو۔

ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے لوگوں نے کہا کبیرہ گناہ سات ہیں آپ نے کئی کئی مرتبہ فرمایا سات سے بھی زیادہ ہیں،

دوسری روایت میں ہے آپ نے فرمایا: سات ہلکا درجہ ہے ورنہ ستر ہیں، ایک اور شخص کے کہنے پر آپ نے فرمایا: وہ سات سو تک ہیں اور سات بہت ہی قریب ہیں ہاں یہ یاد رکھو کہ استغفار کے بعد کبیرہ گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اصرار، ہمیشگی اور دوام کرنے سے صغیرہ گناہ صغیرہ نہیں رہتا۔‏‏‏‏

اور سند سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: جس گناہ پر بھی جہنم کی وعید ہے اللہ تعالیٰ کے غضب لعنت یا عذاب کی ہے وہ کبیرہ گناہ ہے اور روایت میں ہے جس کام سے اللہ منع فرما دے اس کا کرنا کبیرہ گناہ ہے یعنی جس کام میں بھی اللہ عزوجل کی نافرمانی ہو وہ بڑا گناہ ہے۔‏‏‏‏
1651

تابعین کے اقوال بھی ملاحظہ ہوں، عبیدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کبیرہ گناہ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، قتل نفس بغیر حق، میدان جہاد میں پیٹھ پھیرنا، یتیم کا مال اڑانا، سود خوری، بہتان بازی، ہجرت کے بعد وطن دوستی۔

راوی حدیث ابن عون نے اپنے استاد محمد سے پوچھا کیا جادو کبیرہ گناہ میں نہیں؟ فرمایا یہ بہتان میں آ گیا، یہ لفظ بہت سی برائیوں پر مشتمل ہے، عبید بن عمیر رحمہ اللہ نے کبیرہ گناہوں پر آیات قرآنی بھی تلاوت کر کے سنائیں شرک پر «وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ» [22-الحج:31] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا اور اسے پرندے لپک لے جائیں یا ہوا اسے دور دراز نامعلوم اور بدترین جگہ پھینک دے “۔

یتیم کے مال پر «إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا» [4-النساء:10] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال ہڑپ کر لیتے ہیں وہ سب پیٹ میں جہنم کے انگارے بھرتے ہیں “۔

سود خوری پر «الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ» [2-البقرة:275] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” جو لوگ سود خواری کرتے ہیں وہ قیامت کے دن مخبوط الحواس اور پاگل بن کر کھڑے ہوں گے “۔

بہتان پر «إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ» [24-النور:23] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” جو لوگ پاکدامن بےخبر باایمان عورتوں پر تہمت لگائیں “۔

میدان جنگ سے بھاگنے پر «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ» یعنی ” ایمان والو جب کافروں سے مقابلہ ہو جائے تو پیٹھ نہ دکھاؤ “۔

ہجرت کے بعد کفرستان میں قیام کرنے پر «إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَىٰ لَهُمْ» [47-محمد:25] ‏‏‏‏ یعنی ” لوگ ہدایت کے بعد مرتد ہو جائیں “۔

قتل مومن پر «وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا» [4-النساء:93] ‏‏‏‏ یعنی ” جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر مار ڈالے اس کی سزا جہنم کا ابدی داخلہ ہے “۔

عطاء رحمہ اللہ سے بھی کبیرہ گناہوں کا بیان موجود ہے اور اس میں جھوٹی گواہی ہے۔ مغیرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ کہا جاتا تھا کہ سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کو برا کہنا بھی کبیرہ گناہ ہے، میں کہتا ہوں علماء کی ایک جماعت نے اسے کافر کہا ہے جو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہے۔ امام مالک بن انس رحمہ اللہ سے یہ مروی ہے۔
1652

امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں یہ باور نہیں کر سکتا کہ کسی کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہو اور وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دشمنی رکھے۔ [سنن ترمذي:3685،قال الشيخ الألباني:صحیح مقطوع] ‏‏‏‏

زید بن اسلم رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کبائر یہ ہیں۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، اللہ کی آیتوں اور اس کے رسولوں سے کفر کرنا، جادو کرنا، اولاد کو مار ڈالنا، اللہ تعالیٰ سے اولاد اور بیوی کو نسبت دینا اور اسی جیسے وہ اعمال اور وہ اقوال ہیں جن کے بعد کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی ہاں کئی ایسے گناہ ہیں جن کے ساتھ دین رہ سکتا ہے اور عمل قبول کیا جا سکتا ہے ایسے گناہوں کو نیکی کے بدلے اللہ عزوجل معاف فرما دیتا ہے۔

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مغفرت کا وعدہ ان سے کیا ہے جو کبیرہ گناہوں سے بچیں اور ہم سے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کبیرہ گناہ سے بچو ٹھیک ٹھاک اور درست رہو اور خوشخبری سنو۔

مسند عبدالرزاق میں بہ سند صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے بھی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي:2435-2436،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ امام ترمذی رحمہ اللہ بھی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں گو اس روایت کی اور سندیں ضعف سے خالی نہیں مگر اسکے جو شواھد ہیں ان میں سے بھی صحیح روایات ہیں مثلاً ایک حدیث میں ہے کیا تم یہ جانتے ہو کہ میری شفاعت صرف متقیوں اور مومنوں کے لیے ہے؟ نہیں نہیں بلکہ وہ خطا کاروں اور گناہوں سے آلودہ لوگوں کے لیے بھی ہے۔ [سنن ابن ماجہ:4311،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
1653

اب علماء کرام کے اقوال سنئے جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کبیرہ گناہ کسے کہتے ہیں بعض تو کہتے ہیں کبیرہ گناہ وہ ہیں جس پر حد شرعی ہو۔ بعض کہتے ہیں جس پر قرآن میں یا حدیث میں کسی سزاکا ذکر ہو۔ بعض کا قول ہے جس سے دین داری کم ہوتی ہو اور دیانت داری میں کمی واقع ہوتی ہو۔

قاضی ابوسعید ہروی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس کا حرام ہونا لفظوں سے ثابت ہو اور جس نافرمانی پر کوئی حد ہو جیسے قتل وغیرہ اسی طرح ہر فریضہ کا ترک اور جھوٹی گواہی اور جھوٹی روایت اور جھوٹی قسم۔

قاضی روبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کبائر ساتھ ہیں بےوجہ کسی کو مار ڈالنا، زنا، لواطت، شراب نوشی، چوری، غصب، تہمت اور ایک آٹھویں چیز بھی دوسری روایات میں مروی ہے یعنی جھوٹی گواہی اور اسی کے ساتھ یہ بھی شامل کئے گئے ہیں سود خواری، رمضان کے روزے کا بلا عذر ترک کر دینا، جھوٹی قسم، قطع رحمی، ماں باپ کی نافرمانی، جہاد سے بھاگنا، یتیم کا مال کھانا، ناپ تول میں خیانت کرنا نماز وقت سے پہلے یا وقت گزار کے بےعذر ادا کرنا، مسلمان کو بےوجہ مارنا۔
1654

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان کر جھوٹ باندھنا آپ کے صحابیوں کو گالی دینا اور بے سبب گواہی چھپانا، رشوت لینا، مردوں اور عورتوں میں ناچاقی کرا دینا، بادشاہ کے پاس چغل خوری کرنا، زکوٰۃ روک لینا، باوجود قدرت کے بھلی باتوں کا حکم نہ کرنا بری باتوں سے نہ روکنا، قرآن سیکھ کر بھول جانا، جاندار چیز کو آگ سے جلانا، عورت کا اپنے خاوند کے پاس بےسبب نہ آنا، رب کی رحمت سے ناامید ہو جانا، اللہ کے مکر سے بےخوف ہو جانا، اہل علم اور عاملان قرآن کی برائیاں کرنا، ظہار کرنا، سور کا گوشت کھانا، مردار کھانا، ہاں اگر بوجہ ضرورت اور اضطراب کے کھایا کھایا ہو تو اور بات ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان میں سے بعض میں توقف کی گنجائش ہے؟ کبائر کے بارے میں بزرگان دین نے بہت سی کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں ہمارے شیخ حافظ ابوعبداللہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ایک کتاب لکھی ہے جس میں ستر کبیرہ گناہ گنوائے ہیں۔

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کبیرہ گناہ وہ ہے جس پر شارع علیہ السلام نے جہنم کی وعید سنائی ہے۔ اس قسم کے گناہ ہی اگر گنے جائیں تو بہت نکلیں گے اور اگر کبیرہ گناہ ہر اس کام کو کہا جائے جس سے شارع علیہ السلام نے روک دیا ہے تو بہت ہی ہو جائیں گے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
1655



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.