[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] سو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھو اور سنو اور حکم مانو اور خرچ کرو، تمھارے اپنے لیے بہتر ہو گا اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے جائیں سو وہی کامیاب ہیں۔ [16] اگر تم اللہ کو قرض دو گے، اچھا قرض تو وہ اسے تمھارے لیے کئی گنا کر دے گا اور تمھیں بخش دے گا اور اللہ بڑا قدردان، بے حد بردبارہے۔ [17] ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والا، سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ [18] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پس جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو اور سنتے اور مانتے چلے جاؤ اور اللہ کی راه میں خیرات کرتے رہو جو تمہارے لیے بہتر ہے اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے [16] اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے (یعنی اس کی راه میں خرچ کرو گے) تو وه اسے تمہارے لیے بڑھاتا جائے گا اور تمہارے گناه بھی معاف فرما دے گا۔ اللہ بڑا قدر دان بڑا بردبار ہے [17] وه پوشیده اور ﻇاہر کا جاننے واﻻ ہے زبردست حکمت واﻻ (ہے) [18]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] سو جہاں تک ہوسکے خدا سے ڈرو اور (اس کے احکام کو) سنو اور (اس کے) فرمانبردار رہو اور (اس کی راہ میں) خرچ کرو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اور جو شخص طبعیت کے بخل سے بچایا گیا تو ایسے ہی لوگ راہ پانے والے ہیں [16] اگر تم خدا کو (اخلاص اور نیت) نیک (سے) قرض دو گے تو وہ تم کو اس کا دوچند دے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کردے گا۔ اور خدا قدر شناس اور بردبار ہے [17] پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا غالب اور حکمت والا ہے [18]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 16، 17، 18،
اللہ سے طاقت کے مطابق ڈرنا ٭٭
پھر فرماتا ہے ” اپنے مقدور بھر اللہ کا خوف رکھو اس کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرو “۔
بخاری و مسلم میں ہے جو حکم میں کروں اسے اپنی مقدور بھر بجا لاؤ , جس سے میں روک دوں رک جاؤ ۔ [صحیح بخاری:7288]
بعض مفسرین کا فرمان ہے کہ سورۃ آل عمران کی آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ»[3-آل عمران:102] کی ناسخ یہ آیت ہے، یعنی پہلے فرمایا تھا ” اللہ تعالیٰ سے اس قدر ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیئے “، لیکن اب فرما دیا کہ ” اپنی طاقت کے مطابق “۔
چنانچہ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام کرتے تھے کہ پیروں پر ورم آ جاتا تھا اور اتنے لمبے سجدے کرتے تھے کہ پیشانیاں زخمی ہو جاتی تھیں۔“
9555
پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر تخفیف کر دی اور بھی بعض مفسرین نے یہی فرمایا ہے اور پہلی آیت کو منسوخ اور اس دوسری آیت کو ناسخ بتایا ہے۔
پھر فرماتا ہے ” اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار بن جاؤ , ان کے فرمان سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہٹو , نہ آگے بڑھو , نہ پیچھے سرکو، نہ امر کو چھوڑو , نہ نہی کے خلاف کرو، جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے رشتہ داروں کو , فقیروں، مسکینوں کو اور حاجت مندوں کو دیتے رہو، اللہ نے تم پر احسان کیا تم دوسری مخلوق پر احسان کرو تاکہ اس جہان میں بھی اللہ کے احسان کے مستحق بن جاؤ اور اگر یہ نہ کیا تو دونوں جہان کی بربادی اپنے ہاتھوں آپ مول لو گے “۔
«وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ»[59-الحشر:9] کی تفسیر اس آیت میں گزر چکی ہے۔ ” جب تم کوئی چیز راہ اللہ دو گے اللہ اس کا بدلہ دے گا ہر صدقے کی جزا عطا فرمائے گا، تمہارا مسکینوں کے ساتھ سلوک کرنا گویا اللہ کو قرض دینا ہے “۔
9556
بخاری مسلم کی حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” کون ہے؟ جو ایسے کو قرض دے جو نہ تو ظالم ہے، نہ مفلس، نہ نادہندہ “۔ [صحیح مسلم:758]
پس فرماتا ہے ” وہ تمہیں بہت کچھ بڑھا چڑھا کر پھیر دے گا “، جیسے سورۃ البقرہ میں بھی فرمایا ہے «فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً»[2-البقرۃ:245] ” کئی کئی گنا بڑھا کر دے گا “۔
ساتھ ہی خیرات سے تمہارے گناہ معاف فرما کر دے گا، اللہ بڑا قدر دان ہے، تھوڑی سی نیکی کا بہت بڑا اجر دیتا ہے، وہ بردبار ہے، درگزر کرتا ہے، بخش دیتا ہے، گناہوں سے اور لغزشوں سے چشم پوشی کر لیتا ہے، خطاؤں اور برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے، چھپے کھلے کا عالم ہے اور وہ غالب اور باحکمت ہے، ان اسماء حسنیٰ کی تفسیر کئی کئی مرتبہ اس سے پہلے گزر چکی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے سورۃ التغابن کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔