[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جب وہ کوئی تجارت یا تماشا دیکھتے ہیں تو اٹھ کر اس طرف چلے جاتے ہیں اور تجھے کھڑا چھوڑ جاتے ہیں، کہہ دے جو اللہ کے پاس ہے وہ تماشے سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔ [11] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وه کھیل اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے [11]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جب یہ لوگ سودا بکتا یا تماشا ہوتا دیکھتے ہیں تو ادھر بھاگ جاتے ہیں اور تمہیں (کھڑے کا) کھڑا چھوڑ جاتے ہیں۔ کہہ دو کہ جو چیز خدا کے ہاں ہے وہ تماشے اور سودے سے کہیں بہتر ہے اور خدا سب سے بہتر رزق دینے والا ہے [11]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 11،
تجارت عبادت اور صلوۃ جمعہ ٭٭
مدینہ میں جمعہ والے دن تجارتی مال کے آ جانے کی وجہ سے جو حضرات خطبہ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے، انہیں اللہ تعالیٰ عتاب کر رہا ہے کہ یہ لوگ جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھ لیتے ہیں تو اس کی طرف چل کھڑے ہوتے ہیں اور تجھے خطبہ میں ہی کھڑا چھوڑ دیتے ہیں، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مال تجارت دحیہ بن خلیفہ کا تھا جمعہ والے دن آیا اور شہر میں خبر کے لیے طبل بجنے لگا، دحیہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے، طبل کی آواز سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے صرف چند آدمی رہ گئے، مسند احمد میں ہے صرف بارہ آدمی رہ گئے باقی لوگ اس تجارتی قافلہ کی طرف چل دیئے جس پر یہ آیت اتری۔ [صحیح بخاری:4899]
مسند ابو یعلیٰ میں اتنا اور بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ بھی باقی نہ رہتے اور سب اٹھ کر چلے جاتے تو تم سب پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی“، جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نہیں گئے تھے، ان میں سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ [مسند ابویعلیٰ1979]
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا چاہیئے، صحیح مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن دو خطبے پڑھتے تھے درمیان میں بیٹھ جاتے تھے قرآن شریف پڑھتے تھے اور لوگوں کو تذکیر و نصیحت فرماتے تھے۔ [صحیح مسلم:862] یہاں یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیئے کہ یہ واقعہ بقول بعض کے اس وقت کا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا کرتے تھے۔
مراسیل ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے پہلے جمعہ کی نماز پڑھا کرتے تھے جیسے عیدین میں ہوتا ہے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ خطبہ سنا رہے تھے کہ ایک شخص نے آن کر کہا: دحیہ بن خلیفہ مال تجارت لے کر آ گیا ہے، یہ سن کر سوائے چند لوگوں کے اور سب اٹھ کھڑے ہو گئے۔ [ابوداؤد فی المراسیل:59ضعیف]
پھر فرماتا ہے اے نبی ! انہیں خبر سنا دو کہ دار آخرت کا ثواب عند اللہ ہے وہ کھیل تماشوں سے خرید و فروخت سے بہت ہی بہتر ہے، اللہ پر توکل رکھ کر، طلب رزق اوقات اجازت میں جو کرے اللہ اسے بہترین طریق پر روزیاں دے گا۔ «الحمداللہ» سورۃ الجمعہ کی تفسیر پوری ہوئی۔