قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ[6] وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ[7]
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہہ دے اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو! اگر تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم ہی اللہ کے دوست ہو (دوسرے) لوگوں کے سوا تو موت کی تمنا کرو، اگر تم سچے ہو۔ [6] اور وہ کبھی اس کی تمنا نہیں کریں گے، اس کی وجہ سے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اللہ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔ [7]
........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کہہ دیجئے کہ اے یہودیو! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اللہ کے دوست ہو دوسرے لوگوں کے سوا تو تم موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو [6] یہ کبھی بھی موت کی تمنا نہ کریں گے بوجہ ان اعمال کے جو اپنے آگے اپنے ہاتھوں بھیج رکھے ہیں اور اللہ ﻇالموں کو خوب جانتا ہے [7]۔
........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کہہ دو کہ اے یہود اگر تم کو دعویٰ ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں تو اگر تم سچے ہو تو (ذرا) موت کی آرزو تو کرو [6] اور یہ ان (اعمال) کے سبب جو کرچکے ہیں ہرگز اس کی آرزو نہیں کریں گے۔ اور خدا ظالموں سے خوب واقف ہے [7]۔
........................................
پھر فرماتا ہے، اے یہودیو! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم حق پر ہو اور نبی اور آپ کے اصحاب حق پر نہیں تو آؤ اور دعا مانگو کہ ہم دونوں میں سے جو حق پر نہ ہو اللہ اسے موت دے، پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے جو اعمال آگے بھیج رکھے ہیں وہ ان کے سامنے ہیں مثلاً کفر، فجور، ظلم، نافرمانی وغیرہ اس وجہ سے ہماری پیشین گوئی ہے کہ وہ اس پر آمادگی نہیں کریں گے، ان ظالموں کو اللہ بخوبی جانتا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت «قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّـهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ وَلَن يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ ۗ وَاللَّـهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ» [2-البقرہ:94-96] ، کی تفسیر میں یہودیوں کے اس مباہلے کا پورا ذکر ہم کر چکے ہیں اور وہیں یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اپنے اوپر اگر خود گمراہ ہوں تو ان پر تو یا اپنے مقابل پر اگر وہ گمراہ ہوں موت کی بد دعا کریں، جیسے کہ نصرانیوں کے مباہلہ کا ذکر سورۃ آل عمران میں گزر چکا ہے، ملاحظہ ہو تفسیر «فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ» [3-آل عمران:61] ، مشرکین سے بھی مباہلہ کا اعلان کیا گیا ملاحظہ ہو تفسیر سورۃ مریم آیت «قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلٰلَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا» [19-مريم:75] ، یعنی ” اے نبی! ان سے کہہ دے کہ جو گمراہی میں ہو رحمٰن اسے اور بڑھا دے “۔
مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ابوجہل لعنتہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پاس دیکھوں گا تو اس کی گردن ناپوں گا جب یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ ایسا کرتا تو سب کے دیکھتے ہوئے فرشتے اسے پکڑ لیتے اور اگر یہود میرے مقابلہ پر آ کر موت طلب کرتے تو یقیناً وہ مر جاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے اور اگر مباہلہ کے لیے لوگ نکلتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و مال کو ہرگز نہ پاتے“ ۔ یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی موجود ہے۔ [صحیح بخاری:4958]