رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ[5] لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ[6]
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے ہمارے رب !ہمیں ان لوگوں کے لیے آزمائش نہ بنا جنھوں نے کفر کیا اور ہمیں بخش دے اے ہمارے رب !یقینا تو ہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ [5] بلا شبہ یقینا تمھارے لیے ان میں اچھا نمونہ تھا، اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور جو کوئی منہ پھیرے تو یقینا اللہ ہی وہ ذات ہے جو بے پروا ہے، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔ [6]
........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال اور اے ہمارے پالنے والے ہماری خطاؤں کو بخش دے، بیشک تو ہی غالب، حکمت واﻻ ہے [5] یقیناً تمہارے لیے ان میں اچھا نمونہ (اور عمده پیروی ہے خاص کر) ہر اس شخص کے لیے جو اللہ کی اور قیامت کے دن کی ملاقات کی امید رکھتا ہو، اور اگر کوئی روگردانی کرے تو اللہ تعالیٰ بالکل بےنیاز ہے اور سزا وار حمد وﺛنا ہے [6]۔
........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اے ہمارے پروردگار ہم کو کافروں کے ہاتھ سے عذاب نہ دلانا اور اے پروردگار ہمارے ہمیں معاف فرما۔ بےشک تو غالب حکمت والا ہے [5] تم (مسلمانوں) کو یعنی جو کوئی خدا (کے سامنے جانے) اور روز آخرت (کے آنے) کی امید رکھتا ہو اسے ان لوگوں کی نیک چال چلنی (ضرور) ہے۔ اور روگردانی کرے تو خدا بھی بےپرواہ اور سزاوار حمد (وثنا) ہے [6]۔
........................................
پھر کہتے ہیں الٰہی تو ہمیں کافروں کے لیے فتنہ نہ بنا، یعنی ایسا نہ ہو کہ یہ ہم پر غالب آ کر ہمیں مصیبت میں مبتلا کر دیں، اسی طرح یہ بھی نہ ہو کہ تیری طرف سے ہم پر کوئی عتاب و عذاب نازل ہو اور وہ ان کے اور بہکنے کا سبب بنے کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو اللہ انہیں عذاب کیوں کرتا؟ اگر یہ کسی میدان میں جیت گئے تو بھی ان کے لیے یہ فتنہ کا سبب ہو گا وہ سمجھیں گے کہ ہم اس لیے غالب آئے کہ ہم ہی حق پر ہیں، اسی طرح اگر یہ ہم پر غالب آ گئے تو ایسا نہ ہو کہ ہمیں تکلیفیں پہنچا پہنچا کر تیرے دین سے برگشتہ کر دیں۔ پھر دعا مانگتے ہیں کہ الٰہی ہمارے گناہوں کو بھی بخش دے، ہماری پردہ پوشی کر اور ہمیں معاف فرما، تو عزیز ہے تیری جناب میں پناہ لینے والا نامراد نہیں پھرتا، تیرے در پر دستک دینے والا خالی ہاتھ نہیں جاتا، تو اپنی شریعت کے تقرر میں، اپنے اقوال و افعال میں اور قضاء و قدر کے مقدر کرنے میں حکمتوں والا ہے، تیرا کوئی کام الحکمت سے خالی نہیں۔ پھر بطور تاکید کے وہی پہلی بات دہرائی جاتی ہے کہ ان میں تمہارے لیے نیک نمونہ ہے جو بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے آنے کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو اسے ان کی اقتداء میں آگے بڑھ کر قدم رکھنا چاہیئے اور جو احکام اللہ سے روگردانی کرے وہ جان لے کہ اللہ اس سے بےپرواہ ہے، وہ لائق حمد و ثناء ہے، مخلوق اس خالق کی تعریف میں مشغول ہے، جیسے اور جگہ ہے «إِن تَكْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّـهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ» [14-ابراھیم:8] ”اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کفر پر اور اللہ کے نہ ماننے پر اتر آئیں تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ تعالیٰ سب سے غنی سب سے بے نیاز اور سب سے بےپرواہ ہے اور وہ تعریف کیا گیا ہے“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں غنی اسے کہا جاتا ہے جو اپنی غنا میں کامل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر طرح سے بے نیاز اور بالکل بےپرواہ ہے کسی اور کی ذات ایسی نہیں، اس کا کوئی ہمسر نہیں اس کے مثل کوئی اور نہیں، وہ پاک ہے، اکیلا ہے، سب پر حاکم، سب پر غالب، سب کا بادشاہ ہے، حمید ہے یعنی مخلوق اسے سراہ رہی ہے، اپنے جمیع اقوال میں تمام افعال میں وہ ستائشوں اور تعریفوں والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے سوا کوئی پالنے والا نہیں، رب وہی ہے معبود وہی ہے۔