[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ ہے، نہایت پاک، سلامتی والا،امن دینے والا،نگہبان، سب پر غالب، اپنی مرضی چلانے والا، بے حد بڑائی والا ہے، پاک ہے اللہ اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ [23] وہ اللہ ہی ہے جو خاکہ بنانے والا، گھڑنے ڈھالنے والا، صورت بنادینے والا ہے، سب اچھے نام اسی کے ہیں، اس کی تسبیح ہر وہ چیز کرتی ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ [24] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاه، نہایت پاک، سب عیبوں سے صاف، امن دینے واﻻ، نگہبان، غالب زورآور، اور بڑائی واﻻ، پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں [23] وہی اللہ ہے پیدا کرنے واﻻ وجود بخشنے واﻻ، صورت بنانے واﻻ، اسی کے لیے (نہایت) اچھے نام ہیں، ہر چیز خواه وه آسمانوں میں ہو خواه زمین میں ہو اس کی پاکی بیان کرتی ہے، اور وہی غالب حکمت واﻻ ہے [24]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ (حقیقی) پاک ذات (ہر عیب سے) سلامتی امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ خدا ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے [23] وہی خدا (تمام مخلوقات کا) خالق۔ ایجاد واختراع کرنے والا صورتیں بنانے والا اس کے سب اچھے سے اچھے نام ہیں۔ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے [24]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 23، 24،
اللہ تعالیٰ کی صفات ٭٭
اس مالک رب معبود کے سوا اور کوئی ان اوصاف والا نہیں، تمام چیزوں کا تنہا وہی مالک و مختار ہے، ہر چیز کا ہیر پھیر کرنے والا، سب پر قبضہ اور تصرف رکھنے والا بھی وہی ہے، کوئی نہیں جو اس کی مزاحمت یا مدافعت کر سکے یا اسے ممانعت کر سکے، وہ قدوس ہے، یعنی طاہر ہے، مبارک ہے، ذاتی اور صفاتی نقصانات سے پاک ہے، تمام بلند مرتبہ فرشتے اور سب کی سب اعلیٰ مخلوق اس کی تسبیح و تقدیس میں علی الدوام مشغول ہے، کل عیبوں اور نقصانوں سے مبرا اور منزہ ہے، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں، اپنے افعال میں بھی اس کی ذات ہر طرح کے نقصان سے پاک ہے، وہ «مومن» ہے یعنی تمام مخلوق کو اس نے اس بات سے بے خوف رکھا ہے کہ ان پر کسی طرح کا کسی وقت اپنی طرف سے ظلم ہو، اس نے یہ فرما کر کہ یہ حق ہے سب کو امن دے رکھا ہے، اپنے ایماندار بندوں کے ایمان کی تصدیق کرتا ہے۔
وہ «المهيمن» ہے یعنی اپنی تمام مخلوق کے اعمال کا ہر وقت یکساں طور شاہد ہے اور نگہبان ہے، جیسے فرمان ہے «وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ»[85-البروج:9] ” اللہ تعالیٰ ہر چیز پر شاہد ہے۔“
9431
اور فرمان ہے «ثُمَّ اللَّـهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ»[10-یونس:46] ” اللہ تعالیٰ ان کے تمام افعال پر گواہ ہے“
اور جگہ فرمایا «أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ»[13-الرعد:33] ، مطلب یہ ہے کہ ” ہر نفس جو کچھ کر رہا ہے اسے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ “
وہ «عزیز» ہے ہر چیز اس کے تابع فرمان ہے، کل مخلوق پر وہ غالب ہے پس اس کی عزت عظمت، جبروت کبریائی کی وجہ سے اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا، وہ «جبار» اور «متکبر» ہے، جبریت اور کبر صرف اسی کے شایان شان ہے۔
صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عظمت میرا تہبند ہے اور کبریائی میری چادر ہے جو مجھ سے ان دونوں میں سے کسی کو چھیننا چاہے گا میں اسے عذاب کروں گا۔ [صحیح مسلم:2660]
اپنی مخلوق کو جس چیز پر چاہے وہ رکھ سکتا ہے، کل کاموں کی اصلاح اسی کے ہاتھ ہے، وہ ہر برائی سے نفرت اور دوری رکھنے والا ہے، جو لوگ اپنی کم سمجھی کی وجہ سے دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرا رہے ہیں وہ ان سب سے بیزار ہے، اس کی الوہیت شرکت سے مبرا ہے، اللہ تعالیٰ خالق ہے یعنی مقدر مقرر کرنے والا، پھر باری ہے یعنی اسے جاری اور ظاہر کرنے والا، کوئی ایسا نہیں کہ جو تقدیر اور تنقید دونوں پر قادر ہو، جو چاہے اندازہ مقرر کرے اور پھر اسی کے مطابق اسے چلائے بھی، کبھی بھی اس میں فرق نہ آنے دے، بہت سے ترتیب دینے والے اور اندازہ کرنے والے ہیں، جو پھر اسے جاری کرنے اور اسی کے مطابق برابر جاری رکھنے پر قادر نہیں، تقدیر کے ساتھ ایجاد اور تنقید پر بھی قدرت رکھنے والی اللہ کی ہی ذات ہے، پس «خلق» سے مراد تقدیر اور «برء» سے مراد تنفیذ ہے۔
عرب میں یہ الفاظ ان معنوں میں برابر بطور مثال کے بھی مروج ہیں، اسی کی شان ہے کہ جس چیز کو جب جس طرح کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا وہ اسی طرح اسی صورت میں ہو جاتی ہے جیسے فرمان ہے «فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ»[82-الإنفطار:8] ” جس صورت میں اس نے چاہا تجھے ترکیب دی۔ “ اسی لیے یہاں فرماتا ہے وہ مصور بےمثل ہے یعنی جس چیز کی ایجاد جس طرح کی چاہتا ہے کہ گزرتا ہے۔
9432
پیارے پیارے بہترین اور بزرگ تر ناموں والا وہی ہے، سورۃ الاعراف میں اس جملہ کی تفسیر گزر چکی ہے، نیز وہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے جو بخاری مسلم میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں شمار کر لے یاد رکھ لے وہ جنت میں داخل ہو گا وہ وتر ہے یعنی واحد ہے اور اکائی کو دوست رکھتا ہے۔ [صحیح بخاری:6410]
ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں کچھ تقدیم تاخیر کمی زیادتی بھی ہے، الغرض ان تمام احادیث وغیرہ کا بیان پوری طرح سورۃ الاعراف میں گزر چکا ہے، اس لیے یہاں صرف اتنا لکھ دینا کافی ہے باقی سب کو دوبارہ وارد کرنے کی ضرورت نہیں۔ آسمان و زمین کی کل چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔
جیسے اور جگہ فرمان ہے «تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا»[17-الإسراء:44] یعنی ” اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں، ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان میں جو مخلوق ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح حمد کے ساتھ بیان نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے، بیشک وہ بردبار اور بخشش کرنے والا ہے۔“
وہ عزیز ہے اس کی حکمت والی سرکار اپنے احکام اور تقدیر کے تقدر میں ایسی نہیں کہ کسی طرح کی کمی نکالی جائے یا کوئی اعتراض قائم کیا جا سکے۔
9433
مسند احمد کی حدیث میں ہے جو شخص صبح کو تین مرتبہ «أَعُوذ بِاَللَّهِ السَّمِيع الْعَلِيم مِنْ الشَّيْطَان الرَّجِيم» پڑھ کر سورۃ الحشر کے آخر کی (ان) تین آیتوں «هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ هُوَ اللَّـهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ»[59-الحشر:22-24] کو پڑھ لے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے وہ بھی اسی حکم میں ہے۔ ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے غریب بتاتے ہیں۔ [سنن ترمذي:2922،قال الشيخ الألباني:ضعیف]