[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو ان لوگوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہیں پائے گا کہ وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی، خواہ وہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے ، یا ان کے بھائی، یا ان کا خاندان۔ یہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اس نے ایمان لکھ دیا ہے اور انھیں اپنی طرف سے ایک روح کے ساتھ قوت بخشی ہے اور انھیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے۔ یہ لوگ اللہ کا گروہ ہیں، یاد رکھو! یقینا اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ [22] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وه ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں یہ خدائی لشکر ہے، آگاه رہو بیشک اللہ کے گروه والے ہی کامیاب لوگ ہیں [22]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جو لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے۔ خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح) تحریر کردیا ہے اور فیض غیبی سے ان کی مدد کی ہے۔ اور وہ ان کو بہشتوں میں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ خدا ان سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔ یہی گروہ خدا کا لشکر ہے۔ (اور) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے [22]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 22،
اللہ کے دشمنوں سے عداوت ٭٭
پھر فرماتا کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے دوست اللہ کے دشمنوں سے محبت رکھیں، ایک اور جگہ ہے «لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّـهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ»[3-آل عمران:28] مسلمانوں کو چاہیئے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دلی دوست نہ بنائیں ایسا کرنے والے اللہ کے ہاں کسی گنتی میں نہیں، ہاں ڈر خوف کے وقت عارضی دفع کے لیے ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی گرامی ذات سے ڈرا رہا ہے۔
اور جگہ ہے «قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ»[9-التوبہ:24] اے نبی! آپ اعلان کر دیجئیے کہ اگر تمہارے باپ، دادا، بیٹے، پوتے، بچے، کنبہ، قبیلہ، مال دولت، تجارت حرفت، گھربار وغیرہ تمہیں اللہ تعالیٰ، اس کے رسول کے، اس کی راہ میں جہاد کی نسبت زیادہ عزیز اور محبوب ہیں تو تم اللہ کے عنقریب برس پڑنے والے عذاب کا انتظار کرو، اس قسم کے فاسقوں کی رہبری بھی اللہ کی طرف سے نہیں ہوتی۔ سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت سیدنا ابوعبیدہ عامر بن عبداللہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے، جنگ بدر میں ان کے والد کفر کی حمایت میں مسلمانوں کے مقابلے پر آئے آپ نے انہیں قتل کر دیا۔
9378
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری وقت میں جبکہ خلافت کے لیے ایک جماعت کو مقرر کیا کہ یہ لوگ مل کر جسے چاہیں خلیفہ بنا لیں اس وقت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی نسبت فرمایا تھا کہ اگر یہ ہوتے تو میں انہی کو خلیفہ مقرر کرتا [مستدرک حاکم 268/3:منقطع]
اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ایک ایک صفت الگ الگ بزرگوں میں تھی، مثلاً سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے تو اپنے والد کو قتل کیا تھا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کے قتل کا ارادہ کیا تھا اور سیدنا معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے اپنے قریبی رشتہ داروں عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا تھا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
9379
اسی ضمن میں یہ واقعہ بھی داخل ہو سکتا ہے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدری قیدیوں کی نسبت مسلمانوں سے مشورہ کیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تو فرمایا کہ ان سے فدیہ لے لیا جائے تاکہ مسلمانوں کی مالی مشکلات دور ہو جائیں، مشرکوں سے جہاد کرنے کے لیے آلات حرب جمع کر لیں اور یہ چھوڑ دیئے جائیں، کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل اسلام کی طرف پھیر دے، آخر ہیں تو ہمارے ہی کنبے رشتے کے، لیکن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے اس کے بالکل برخلاف پیش کی کہ یا رسول اللہ ! جس مسلمان کا جو رشتہ دار مشرک ہے اس کے حوالے کر دیا جائے اور اسے حکم دیا جائے کہ وہ اسے قتل کر دے ہم اللہ تعالیٰ کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں ان مشرکوں کی کوئی محبت نہیں، مجھے فلاں رشتہ دار سونپ دیجئیے اور علی کے حوالے عقیل کر دیجئیے اور فلاں صحابی کو فلاں کافر دے دیجئیے وغیرہ۔
پھر فرماتا ہے کہ جو اپنے دل کو دشمنان اللہ کی محبت سے خالی کر دے اور مشرک رشتہ داروں سے بھی محبت چھوڑ دے وہ کامل الایمان شخص ہے جس کے دل میں ایمان نے جڑیں جما لی ہیں اور جن کی قسمت میں سعادت لکھی جا چکی ہے اور جن کی نگاہ میں ایمان کی زینت جچ گئی ہے اور ان کی تائید اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس کی روح سے کی ہے یعنی انہیں قوی بنا دیا ہے اور یہی بہتی ہوئی نہروں والی جنت میں جائیں گے جہاں سے کبھی نہ نکالے جائیں، اللہ تعالیٰ ان سے راضی یہ اللہ سے خوش، چونکہ انہوں نے اللہ کے رشتہ کنبہ والوں کو ناراض کر دیا تھا، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ان سے راضی ہو گیا اور انہیں اس قدر دیا کہ یہ بھی خوش خوش ہو گئے۔ اللہ کا لشکر یہی ہے اور کامیاب گروہ بھی یہی ہے، جو شیطانی لشکر اور ناکام گروہ کے مقابل ہے۔
ابوحازم اعرج رحمہ اللہ نے زہری رحمہ اللہ کو لکھا کہ جاہ دو قسم کی ہے ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے ہاتھوں پر جاری کرتا ہے، جو حضرات عام لوگوں کی نگاہوں میں نہیں جچتے جن کی عام شہرت نہیں ہوتی جن کی صفت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیان فرمائی ہے، کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گمنام متقی نیکوکار ہیں، اگر وہ نہ آئیں تو پوچھ گچھ نہ ہو اور آ جائیں تو آؤ بھگت نہ ہو ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں، ہر سیاہ رنگ اندھیرے والے فتنے سے نکلتے ہیں، یہ ہیں وہ اولیاء جنہیں اللہ نے اپنا لشکر فرمایا ہے اور جن کی کامیابی کا اعلان کیا ہے۔ [ابن ابی حاتم]
9380
نعیم بن حماد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں فرمایا: ”اے اللہ کسی فاسق فاجر کا کوئی احسان اور سلوک مجھ پر نہ رکھ کیونکہ میں نے تیری نازل کردہ وحی میں پڑھا ہے کہ ایماندار اللہ کے مخالفین کے دوست نہیں ہوتے۔“[سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:2975،ضعیف]
سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں علمائے سلف کا خیال ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو بادشاہ سے خلط ملط رکھتے ہوں۔ [ابواحمدعسکری]