[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] وہ لوگ جو تم میں سے اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں ہیں، ان کی مائیں ان کے سوا کوئی نہیں جنھوں نے انھیں جنم دیا اور بلاشبہ وہ یقینا ایک بری بات اور جھوٹ کہتے ہیں اور بلاشبہ اللہ یقینا بے حد معاف کرنے والا، نہایت بخشنے والا ہے۔ [2] اور وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں، پھر اس سے رجوع کرلیتے ہیں جو انھوں نے کہا ،تو ایک گردن آزاد کرنا ہے، اس سے پہلے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، یہ ہے وہ (کفارہ) جس کے ساتھ تم نصیحت کیے جائو گے،اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، پور ی طرح باخبر ہے۔ [3] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ﻇہار کرتے ہیں (یعنی انہیں ماں کہہ بیٹھتے ہیں) وه دراصل ان کی مائیں نہیں بن جاتیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وه پیدا ہوئے، یقیناً یہ لوگ ایک نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے واﻻ اور بخشنے واﻻ ہے [2] جو لوگ اپنی بیویوں سے ﻇہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرلیں تو ان کے ذمہ آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے، اس کے ذریعہ تم نصیحت کیے جاتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے [3]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جو لوگ تم میں سے اپنی عورتوں کو ماں کہہ دیتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں (ہوجاتیں) ۔ ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے۔ بےشک وہ نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں اور خدا بڑا معاف کرنے والا (اور) بخشنے والا ہے [2] اور جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھیں پھر اپنے قول سے رجوع کرلیں تو (ان کو) ہم بستر ہونے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا (ضروری) ہے۔ (مومنو) اس (حکم) سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے [3]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 2، 3،
خولہ اور خویلہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا اور مسئلہ ظہار ٭٭
سیدہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم میرے اور میرے خاوند اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس سورۃ المجادلہ کی شروع کی چار آیتیں اتری ہیں، میں ان کے گھر میں تھی، یہ بوڑھے اور بڑی عمر کے تھے اور کچھ اخلاق کے بھی اچھے نہ تھے، ایک دن باتوں ہی باتوں میں میں نے ان کی کسی بات کے خلاف کہا اور انہیں کچھ جواب دیا، جس پر وہ بڑے غضب ناک ہوئے اور غصے میں فرمانے لگے، تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے پھر گھر سے چلے گئے اور قومی مجلس میں کچھ دیر بیٹھے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے خاص بات چیت کرنی چاہی، میں نے کہا: اس اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں خولہ کی جان ہے تمہارے اس کہنے کے بعد اب یہ بات ناممکن ہے یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہمارے بارے میں نہ ہو، لیکن وہ نہ مانے اور زبردستی کرنے لگے مگر چونکہ کمزور اور ضعیف تھے میں ان پر غالب آ گئی اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے، میں اپنی پڑوسن کے ہاں گئی اور اس سے کپڑا مانگ کر اوڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی، اس واقعہ کو بیان کیا اور بھی اپنی مصیبتیں اور تکلیفیں بیان کرنی شروع کر دیں، آپ یہی فرماتے جاتے تھے خولہ! اپنے خاوند کے بارے میں اللہ سے ڈرو، وہ بوڑھے بڑے ہیں، ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی، جب وحی اتر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے خولہ! تیرے اور تیرے خاوند کے بارے میں قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوئی ہیں“، پھر آپ نے آیات «قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ»[58-المجادلة:1] سے «وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ» [58-المجادلة:4] تک پڑھ سنائیں۔
9338
اور فرمایا: ”جاؤ اپنے میاں سے کہو کہ ایک غلام آزاد کریں“، میں نے کہا: یا رسول اللہ ! ان کے پاس غلام کہاں؟ وہ تو بہت مسکین شخص ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو دو مہینے کے لگاتار روزے رکھ لیں“، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! وہ تو بڑی عمر کے بوڑھے ناتواں کمزور ہیں انہیں دو ماہ کے روزوں کی بھی طاقت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق (تقریباً چار من پختہ) کھجوریں دے دیں“، میں نے کہا: یا رسول اللہ ! ”اس مسکین کے پاس یہ بھی نہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا آدھا وسق کھجوریں میں اپنے پاس سے انہیں دیدوں گا“ میں نے کہا: بہتر آدھا وسق میں دیدوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تم نے بہت اچھا کیا اور خوب کام کیا، جاؤ یہ ادا کر دو اور اپنے خاوند کے ساتھ جو تمہارے چچا کے لڑکے ہیں محبت، پیار، خیر خواہی اور فرمانبرداری سے گزارا کرو۔“[سنن ابوداود:2214،قال الشيخ الألباني:حسن]
ان کا نام بعض روایتوں میں خویلہ کے بجائے خولہ رضی اللہ عنہا بھی آیا ہے اور بنت ثعلبہ کے بدلے بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا بھی آیا ہے، ان اقوال میں کوئی ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» اس سورت کی ان شروع کی آیتوں کا صحیح شان نزول یہی ہے۔