تفسير ابن كثير



سورۃ الواقعة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ[83] وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنْظُرُونَ[84] وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ[85] فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ[86] تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ[87]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر کیوں نہیں کہ جب وہ (جان) حلق کو پہنچ جاتی ہے۔ [83] اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو۔ [84] اور ہم تم سے زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں اور لیکن تم نہیں دیکھتے۔ [85] سو اگر تم (کسی کے) محکوم نہیں تو کیوں نہیں۔ [86] تم اسے واپس لے آتے، اگر تم سچے ہو۔ [87]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پس جبکہ روح نرخرے تک پہنچ جائے [83] اور تم اس وقت آنکھوں سے دیکھتے رہو [84] ہم اس شخص سے بہ نسبت تمہارے بہت زیاده قریب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھ سکتے [85] پس اگر تم کسی کے زیرفرمان نہیں [86] اور اس قول میں سچے ہو تو (ذرا) اس روح کو تو لوٹاؤ [87]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بھلا جب روح گلے میں آ پہنچتی ہے [83] اور تم اس وقت کی (حالت کو) دیکھا کرتے ہو [84] اور ہم اس (مرنے والے) سے تم سے بھی زیادہ نزدیک ہوتے ہیں لیکن تم کو نظر نہیں آتے [85] پس اگر تم کسی کے بس میں نہیں ہو [86] تو اگر سچے ہو تو روح کو پھیر کیوں نہیں لیتے؟ [87]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 83، 84، 85، 86، 87،

عالم نزع کی بےبسی ٭٭

اسی مضمون کی آیتیں سورۃ القیامہ میں بھی ہیں «كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ» * «وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ» * «وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ» * «وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ» * «إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ» [75-القیامۃ:26-30] ‏‏‏‏ فرماتا ہے کہ ایک شخص اپنے آخری وقت میں ہے نزع کا عالم ہے روح پرواز کر رہی ہے تم سب پاس بیٹھے دیکھ رہے ہو کوئی کچھ نہیں کر سکتا ہمارے فرشتے جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تم سے بھی زیادہ قریب اس مرنے والے سے ہیں۔

جیسے اور جگہ ہے «وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ» * «ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّـهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ» [6-الانعام:62،61] ‏‏‏‏ اللہ اپنے بندوں پر غالب ہے وہ تم پر اپنے پاس سے محافظ بھیجتا ہے جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے اسے ٹھیک طور پر فوت کر لیتے ہیں پھر وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ مولائے حق کی طرف بازگشت کرائے جائیں گے جو حاکم ہے اور جلد حساب لے لینے والا ہے۔

یہاں فرماتا ہے اگر سچ مچ تم لوگ کسی کے زیر فرمان نہیں ہو اگر یہ حق ہے کہ تم دوبارہ جینے اور میدان قیامت میں حاضر ہونے کے قائل نہیں ہو اور اس میں تم حق پر ہو اگر تمہیں حشر و نشر کا یقین نہیں اگر تم عذاب نہیں کئے جاؤ گے وغیرہ۔ تو ہم کہتے ہیں اس روح کو جانے ہی کیوں دیتے ہو؟ اگر تمہارے بس میں ہے تو حلق تک پہنچی ہوئی روح کو واپس اس کی اصلی جگہ پہنچا دو۔ پس یاد رکھو جیسے اس روح کو اس جسم میں ڈالنے پر ہم قادر تھے اور اس کو بھی تم نے بہ چشم خود دیکھ لیا یقین مانو اسی طرح ہم دوبارہ اسی روح کو اس جسم میں ڈال کر نئی زندگی دینے پر بھی قادر ہیں۔ تمہارا اپنی پیدائش میں دخل نہیں تو مرنے میں پھر دوبارہ جی اٹھنے میں تمہارا دخل کہاں سے ہو گیا؟ پھر کیوں تم کہتے پھرتے ہو کہ ہم مر کر زندہ نہیں ہوں گے۔
9260



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.