[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اوربائیں ہاتھ والے ،کیا (ہی برے) ہیں بائیں ہاتھ والے۔ [41] ( وہ) ایک زہریلی لو اور کھولتے ہوئے پانی میں۔ [42] اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں ہوں گے۔ [43] جو نہ ٹھنڈا ہے اور نہ باعزت۔ [44] بے شک وہ اس سے پہلے نعمتوں میںپالے ہوئے تھے۔ [45] اور وہ بہت بڑے گناہ (شرک) پر اڑے رہتے تھے۔ [46] اور وہ کہا کرتے تھے کیا جب ہم مر جائیں گے اور ہم مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا واقعی ہم ضرور اٹھائے جانے والے ہیں؟ [47] اور کیا ہمارے پہلے باپ دادا بھی ؟ [48] کہہ دے بے شک تمام پہلے اور پچھلے۔ [49] ایک معلوم دن کے مقرر وقت پر یقینا اکٹھے کیے جانے والے ہیں۔ [50] پھر بے شک تم اے گمراہو! جھٹلانے والو! [51] یقینا تھوہر کے پودے میں سے کھانے والے ہو۔ [52] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور بائیں ہاتھ والے کیا ہیں بائیں ہاتھ والے [41] گرم ہوا اور گرم پانی میں (ہوں گے) [42] اورسیاه دھوئیں کے سائے میں [43] جو نہ ٹھنڈا ہے نہ فرحت بخش [44] بیشک یہ لوگ اس سے پہلے بہت نازوں میں پلے ہوئے تھے [45] اور بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرتے تھے [46] اور کہتے تھے کہ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈی ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر دوباره اٹھا کھڑے کیے جائیں گے [47] اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی؟ [48] آپ کہہ دیجئے کہ یقیناً سب اگلے اور پچھلے [49] ضرور جمع کئے جائیں گے ایک مقرر دن کے وقت [50] پھر تم اے گمراہو جھٹلانے والو! [51] البتہ کھانے والے ہو تھوہر کا درخت [52]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور بائیں ہاتھ والے (افسوس) بائیں ہاتھ والے کیا (ہی عذاب میں) ہیں [41] (یعنی دوزخ کی) لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی میں [42] اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں [43] (جو) نہ ٹھنڈا (ہے) نہ خوشنما [44] یہ لوگ اس سے پہلے عیشِ نعیم میں پڑے ہوئے تھے [45] اور گناہ عظیم پر اڑے ہوئے تھے [46] اور کہا کرتے تھے کہ بھلا جب ہم مرگئے اور مٹی ہوگئے اور ہڈیاں (ہی ہڈیاں رہ گئے) تو کیا ہمیں پھر اُٹھنا ہوگا؟ [47] اور کیا ہمارے باپ دادا کو بھی؟ [48] کہہ دو کہ بےشک پہلے اور پچھلے [49] (سب) ایک روز مقرر کے وقت پر جمع کئے جائیں گے [50] پھر تم اے جھٹلانے والے گمرا ہو! [51] تھوہر کے درخت کھاؤ گے [52]۔ ........................................
اصحاب یمین کا ذکر کرنے کے بعد اصحاب شمال کا ذکر ہو رہا ہے فرماتا ہے ان کا کیا حال ہے یہ کس عذاب میں ہوں گے؟ پھر ان عذابوں کا بیان فرماتا ہے کہ یہ گرم ہوا کے تھپیڑوں اور کھولتے ہوئے گرم پانی میں ہیں اور دھوئیں کے سخت سیاہ سائے میں جیسے اور جگہ «انطَلِقُوا إِلَى مَا كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ» * «انطَلِقُوا إِلَى ظِلٍّ ذِي ثَلَاثِ شُعَبٍ» * «لَّا ظَلِيلٍ وَلَا يُغْنِي مِنَ اللَّـهَبِ» * «إِنَّهَا تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ» * «كَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ» * «وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ»[77-المرسلات:34-29] فرمایا ہے یعنی ” اس دوزخ کی طرف چلو جسے تم جھٹلاتے تھے۔ چلو تین شاخوں والے سایہ کی طرف جو نہ گھنا ہے نہ آگ کے شعلے سے بچا سکتا ہے، وہ دوزخ محل کی اونچائی کے برابر چنگاریاں پھینکتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ سرد اونٹنیاں ہیں۔ آج تکذیب کرنے والوں کی خرابی ہے “۔
اسی طرح یہاں بھی فرمان ہے کہ یہ لوگ جن کے بائیں ہاتھ میں عمل نامہ دیا گیا ہے یہ سخت سیاہ دھوئیں میں ہوں گے جو نہ جسم کو اچھا لگے، نہ آنکھوں کو بھلا معلوم ہو، یہ عرب کا محاورہ ہے کہ جس چیز کی زیادہ برائی بیان کر لی ہو وہاں اس کا ہر ایک برا وصف بیان کر کے اس کے بعد «وَلَا كَرِيمٍ» کہہ دیتے ہیں۔
9214
پھر اللہ تعالیٰ بیان فرمایا ہے یہ لوگ ان سزاؤں کے مستحق اس لیے ہوئے کہ دنیا میں جو اللہ کی نعمتیں انہیں ملی تھیں ان میں یہ سست ہو گئے۔ رسولوں کی باتوں کی طرف نظر بھی نہ اٹھائی۔ بدکاریوں میں پڑ گئے اور پھر توبہ کی طرف دلی توجہ بھی نہ رہی۔
«الْحِنْثِ الْعَظِيمِ» سے مراد بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کفر شرک ہے، بعض کہتے ہیں جھوٹی قسم ہے، پھر ان کا ایک اور عیب بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کا ہونا بھی محال جانتے تھے، اس کی تکذیب کرتے تھے اور عقلی استدلال پیش کرتے تھے کہ مر کر مٹی میں مل کر پھر بھی کہیں کوئی جی سکتا ہے؟ انہیں جواب مل رہا ہے کہ «إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَةِ ذَلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ» * «وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلَّا لِأَجَلٍ مَّعْدُودٍ» * «يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ»[11-ھود:103-105] تمام اولاد آدم قیامت کے دن نئی زندگی میں پیدا ہو کر اور ایک میدان میں جمع ہو گی، کوئی ایک وجود بھی ایسا نہ ہو گا جو دنیا میں آیا ہو اور یہاں نہ ہو۔
جیسے اور جگہ ہے اس دن سب جمع کر دیئے جائیں گے یہ حاضر باشی کا دن ہے، تمہیں دنیا میں چند روز مہلت ہے، قیامت کے دن کون ہے جو بلا اجازت اللہ لب بھی ہلا سکے؟ انسان دو قسم پر تقسیم کر دیئے جائیں گے نیک الگ اور بد علیحدہ۔ وقت قیامت محدود اور مقرر ہے، کمی زیادتی تقدیم تاخیر اس میں بالکل نہ ہو گی۔ پھر تم اے گمراہو اور جھٹلانے والو! زقوم کے درخت کھلوائے جاؤ گے، انہیں سے پیٹ بوجھل کرو گے کیونکہ جبراً وہ تمہارے حلق میں ٹھونسا جائے گا،پھر اس پر کھولتا ہوا پانی تمہیں پینا پڑے گا اور وہ بھی اس طرح جیسے پیاسا اونٹ پی رہا ہو۔
«هِيمِ» جمع ہے اس کا واحد «اهِيم» ہے مونث «ہیماء» ہے «ہائم» اور «ہائمہ» بھی کہا جاتا ہے۔ سخت پیاس والے اونٹ کو کہتے ہیں جسے پیاس کی بیماری ہوتی ہے پانی چوستا رہتا ہے لیکن سیرابی نہیں ہوتی اور نہ اس بیماری سے اونٹ جانبر ہوتا ہے، اسی طرح یہ جہنمی جبراً سخت گرم پانی پلائے جائیں گے جو خود ایک بدترین عذاب ہو گا بھلا اس سے پیاس کیا رکتی ہے؟
سیدنا خالد بن معدان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ہی سانس میں پانی پینا یہ بھی پیاس والے اونٹ کا سا پینا ہے اس لیے مکروہ ہے پھر فرمایا ان مجرموں کی ضیافت آج جزا کے دن یہی ہے، جیسے متقین کے بارے میں اور جگہ ہے «إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّـتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً»[18-الکھف:107] ان کی مہمانداری جنت الفردوس ہے۔