تفسير ابن كثير



سورۃ الرحمٰن

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ[46] فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ[47] ذَوَاتَا أَفْنَانٍ[48] فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ[49] فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ[50] فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ[51] فِيهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ[52] فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ[53]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، دو باغ ہیں۔ [46] تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے ؟ [47] دونوں بہت شاخوں والے ہیں۔ [48] تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے ؟ [49] ان دونوں میں دو چشمے ہیں، جو بہ رہے ہیں۔ [50] تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے ؟ [51] ان دونوں میں ہر پھل کی دو قسمیں ہیں۔ [52] تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے ؟ [53]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں [46] پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ [47] (دونوں جنتیں) بہت سی ٹہنیوں اور شاخوں والی ہیں [48] پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ [49] ان دونوں (جنتوں) میں دو بہتے ہوئے چشمے ہیں [50] پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ [51] ان دونوں جنتوں میں ہر قسم کے میوؤں کی دو قسمیں ہوگی [52] پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ [53]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اس کے لئے دو باغ ہیں [46] تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ [47] ان دونوں میں بہت سی شاخیں (یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں) [48] تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ [49] ان میں دو چشمے بہہ رہے ہیں [50] تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ [51] ان میں سب میوے دو دو قسم کے ہیں [52] تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ [53]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 46، 47، 48، 49، 50، 51، 52، 53،

فکر آخرت اور انسان ٭٭

ابن شوذب اور عطا خراسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت «‏‏‏‏وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ» ‏‏‏‏ [55- الرحمن:46] ‏‏‏‏ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

عطیہ بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے کہا تھا مجھے آگ میں جلا دینا تاکہ میں اللہ تعالیٰ کو ڈھونڈانے پر نہ ملوں، یہ کلمہ کہنے کے بعد ایک رات ایک دن توبہ کی اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لی اور اسے جنت میں لے گیا۔ [الدر المنشور-202/6] ‏‏‏‏ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا قول بھی یہی ہے۔

مطلب یہ ہے کہ «وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ» [النازعات:40] ‏‏‏‏ جو شخص قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے کا ڈر اپنے دل میں رکھتا ہے اور اپنے آپ کو نفس کی خواہشوں سے بچاتا ہے اور سرکشی نہیں کرتا زندگانی دنیا کے پیچھے پڑ کر آخرت سے غفلت نہیں کرتا بلکہ آخرت کی فکر زیادہ کرتا ہے اور اسے بہتر اور پائیدار سمجھتا ہے، فرائض بجا لاتا ہے، محرمات سے رکتا ہے، قیامت کے دن اسے ایک چھوڑ دو دو جنتیں ملیں گی۔
9113

صحیح بخاری میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دو جنتیں چاندی کی ہوں گی اور ان کا تمام سامان بھی چاندی کا ہی ہو گا اور دو جنتیں سونے کی ہوں گی ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے سب سونے کا ہو گا، ان جنتیوں میں اور دیدار باری میں کوئی چیز حائل نہ ہو گی سوائے اس کبریائی کے پردے کے جو اللہ عزوجل کے چہرے پر ہے یہ جنت عدن میں ہوں گے ، [صحیح بخاری:4878] ‏‏‏‏ یہ حدیث صحاح کی اور کتابوں میں بھی ہے بجز ابوداؤد کے راوی حدیث حماد رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے خیال میں تو یہ حدیث مرفوع ہے۔

تفسیر ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان «‏‏‏‏وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ» [55-الرحمن:46] ‏‏‏‏ اور آیت «‏‏‏‏وَمِنْ دُوْنِهِمَا جَنَّتٰنِ» [55-الرحمن:62] ‏‏‏‏ کی۔ سونے کی دو جنتیں مقربین کے لیے اور چاندی کی دو جنتیں اصحاب یمین کے لیے۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس آیت کی تلاوت کی تو میں نے کہا اگرچہ زنا اور چوری بھی اس سے ہو گئی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی آیت کی تلاوت کی میں نے پھر یہی کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی آیت پڑھی میں نے پھر یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ ابوالدرداء کی ناک خاک آلود ہو جائے۔ [نسائی في التفسير:580،قال الشيخ الألباني:صحيح] ‏‏‏‏ بعض سند سے یہ روایت موقوف بھی مروی ہے اور سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ جس دل میں اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف ہو گا ناممکن ہے کہ اس سے زنا ہو یا وہ چوری کرے۔

یہ آیت عام ہے انسانوں اور جنات دونوں کو شامل ہے اور اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ جنوں میں بھی جو ایمان لائیں اور تقویٰ کریں، وہ جنت میں جائیں گے، اسی لیے جن و انس کو اس کے بعد خطاب کر کے فرماتا ہے کہ اب تم اپنے رب کی کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے؟

پھر ان دونوں جنتوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے کہ یہ نہایت ہی سرسبز و شاداب ہیں، بہترین اعلیٰ خوش ذائقہ عمدہ اور تیار پھل ہر قسم کے ان میں موجود ہیں۔ تمہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ تم اپنے پروردگار کی کسی نعمت کا انکار کرو۔

«افنان» شاخوں اور ڈالیوں کو کہتے ہیں- یہ اپنی کثرت سے ایک دوسری سے ملی جلی ہوئی ہوں گی اور سایہ دار ہوں گی جن کا سایہ دیواروں پر بھی چڑھا ہوا ہو گا،

عکرمہ رضی اللہ عنہ یہی معنی بیان کرتے ہیں اور عربی کے شعر کو اس پر دلیل میں وارد کرتے ہیں، یہ شاخیں سیدھی اور پھیلی ہوئی ہوں گی، رنگ برنگ کی ہوں گی۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ ان میں طرح طرح کے میوے ہوں گی، کشادہ اور گھنے سایہ والی ہوں گی۔ یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ان میں کوئی منافاۃ نہیں یہ تمام اوصاف ان شاخوں میں ہوں گے۔
9114

اسماء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کی شاخوں کا سایہ اس قدر دراز ہے کہ سوار سو سال تک اس میں چلا جائے۔‏‏‏‏ یا فرمایا کہ سو سوار اس کے تلے سایہ حاصل کر لیں۔ سونے کی ٹڈیاں اس پر چھائی ہوئی تھیں اس کے پھل بڑے بڑے مٹکوں اور بہت بڑی گول جتنے تھے- [سنن ترمذي:2541،قال الشيخ الألباني:ضعيف] ‏‏‏‏

پھر ان میں نہریں بہہ رہی ہیں تاکہ ان درختوں اور شاخوں کو سیراب کرتی رہیں اور بکثرت اور عمدہ پھل لائیں۔ اب تو تمہیں اپنے رب کی نعمتوں کی قدر کرنی چاہیئے ایک کا نام «تسنیم» ہے، دوسری کا «سلسبیل» ہے- یہ دونوں نہریں پوری روانگی کے ساتھ بہہ رہی ہیں۔ ایک ستھرے پانی کی دوسری لذت والے بےنشے کے شراب کی، ان میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے بھی موجود ہیں اور پھل بھی وہ جن سے تم صورت شناس تو ہو لیکن لذت شناس نہیں ہو کیونکہ وہاں کی نعمتیں نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہیں، نہ کسی کان نے سنی ہیں، نہ کسی دماغ میں آ سکتی ہیں، تمہیں رب کی نعمتوں کی ناشکری سے رک جانا چاہیئے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں دنیا میں جتنے بھی کڑوے میٹھے پھل ہیں، وہ سب جنت میں ہوں گے یہاں تک کہ «حنظل» یعنی اندرائن بھی۔ ہاں دنیا کی ان چیزوں اور جنت کی ان چیزوں کے نام تو ملتے جلتے ہیں حقیقت اور لذت بالکل ہی جداگانہ ہے یہاں تو صرف نام ہیں اصلیت تو جنت میں ہے، اس فضیلت کا فرق وہاں جانے کے بعد ہی معلوم ہو سکتا ہے۔
9115



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.