[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور بلاشبہ یقینا فرعون کی آل کے پاس ڈرانے والے آئے۔ [41] انھوں نے ہماری سب کی سب نشانیوں کو جھٹلادیا تو ہم نے انھیں پکڑا، جیسے اس کی پکڑ ہوتی ہے جو سب پر غالب، بے حد قدرت والا ہو۔ [42] کیا تمھارے کفار ان لوگوں سے بہتر ہیں، یا تمھارے لیے (پہلی) کتابوں میں کوئی چھٹکارا ہے؟ [43] یا وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک جماعت ہیں، جو بدلہ لے کر رہنے والے ہیں؟ [44] عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے ۔ [45] بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت زیادہ بڑی مصیبت اور زیادہ کڑوی ہے۔ [46] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور فرعونیوں کے پاس بھی ڈرانے والے آئے [41] انہوں نے ہماری تمام نشانیاں جھٹلائیں پس ہم نے انہیں بڑے غالب قوی پکڑنے والے کی طرح پکڑ لیا [42] (اے قریشیو!) کیا تمہارے کافر ان کافروں سے کچھ بہتر ہیں؟ یا تمہارے لیے اگلی کتابوں میں چھٹکارا لکھا ہوا ہے؟ [43] یا یہ کہتے ہیں کہ ہم غلبہ پانے والی جماعت ہیں [44] عنقریب یہ جماعت شکست دی جائےگی اور پیٹھ دے کر بھاگے گی [45] بلکہ قیامت کی گھڑی ان کے وعدے کے وقت ہے اور قیامت بڑی سخت اور کڑوی چیز ہے [46]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور قوم فرعون کے پاس بھی ڈر سنانے والے آئے [41] انہوں نے ہماری تمام نشانیوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو اس طرح پکڑ لیا جس طرح ایک قوی اور غالب شخص پکڑ لیتا ہے [42] (اے اہل عرب) کیا تمہارے کافر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے (پہلی) کتابوں میں کوئی فارغ خطی لکھ دی گئی ہے [43] کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت بڑی مضبوط ہے [44] عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے [45] ان کے وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور قیامت بڑی سخت اور بہت تلخ ہے [46]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 41، 42، 43، 44، 45، 46،
سچائی کے دلائل سے اعراض کرنے والی اقوام ٭٭
فرعون اور اس کی قوم کا قصہ بیان ہو رہا ہے کہ ان کے پاس اللہ کے رسول موسیٰ اور ہارون علیہما السلام بشارت اور ڈراوے لے کر آتے ہیں، بڑے بڑے معجزے اور زبردست نشانیاں اللہ کی طرف سے انہیں دی جاتی ہیں، جو ان کی نبوت کی حقانیت پر پوری پوری دلیل ہوتی ہیں۔ لیکن یہ فرعونی ان سب کو جھٹلاتے ہیں جس کی بدبختی میں ان پر عذاب الٰہی نازل ہوتے ہیں اور انہیں بالکل ہی سوکھے تنکوں کی طرح اڑا دیا جاتا ہے۔
9038
پھر فرماتا ہے: اے مشرکین قریش! اب بتلاؤ تم ان سے کچھ بہتر ہو؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے لیے اللہ نے اپنی کتابوں میں چھوٹ دے رکھی ہے کہ ان کے کفر پر تو انہیں عذاب کیا جائے لیکن تم کفر کئے جاؤ اور تمہیں کوئی سزا نہ دی جائے؟ پھر فرماتا ہے: کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ایک جماعت کی جماعت ہیں، آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں گے اور ہمیں کوئی برائی ہماری کثرت اور جماعت کی وجہ سے نہیں چھوئے گی؟ اگر یہ خیال ہو تو انہیں یقین کر لینا چاہیے کہ ان کی یہ بدبختی توڑ دی جائے گی، ان کی جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا، انہیں ہزیمت دی جائے گی اور یہ پیٹھ دکھا کر بھاگتے پھریں گے۔
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ بدر والے دن اپنی قیام گاہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا فرما رہے تھے ”اے اللہ! تجھے تیرا عہد و پیمان یاد دلاتا ہوں، اے اللہ! اگر تیری چاہت یہی ہے کہ آج کے دن کے بعد سے تیری عبادت و وحدانیت کے ساتھ زمین پر کی ہی نہ جائے“، بس اتنا ہی کہا تھا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا: یا رسول اللہ! بس کیجئے، آپ نے بہت فریاد کر لی۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے سے باہر آئے اور زبان پر دونوں آیتیں «سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ» * «بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ»[54-القمر:46،45] جاری تھیں ۔ [صحیح بخاری:4877]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس آیت کے اترنے کے وقت میں سوچ رہا تھا کہ اس سے مراد کون سی جماعت ہو گی؟ جب بدر والے دن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ زرہ پہنے ہوئے اپنے خیمہ سے باہر تشریف لائے اور یہ آیت پڑھ رہے تھے، اس دن میری سمجھ میں اس کی تفسیر آ گئی۔
صحیح بخاری میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میری چھوٹی سی عمر تھی، اپنی ہمجولیوں میں کھیلتی پھرتی تھی اس وقت یہ آیت «بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ»[54-القمر:46] اتری ہے۔ یہ روایت بخاری میں فضائل القرآن کے موقعہ پر مطول مروی ہے [صحیح بخاری:4993] مسلم میں یہ حدیث نہیں۔