[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] ایک قطرے سے، جب وہ ٹپکایا جاتا ہے۔ [46] اور یہ کہ اسی کے ذمہ دوسری دفعہ پیدا کرنا ہے۔ [47] اور یہ کہ اسی نے غنی کیا اور خزانہ بخشا۔ [48] اور یہ کہ وہی شعریٰ (ستارے) کارب ہے۔ [49] اور یہ کہ اسی نے پہلی قوم عاد کو ہلاک کیا۔ [50] اور ثمود کو، پس (کسی کو) باقی نہیں چھوڑا۔ [51] اور ان سے پہلے نوح کی قوم کو، یقینا وہی زیادہ ظالم اور زیادہ حد سے بڑھے ہوئے تھے۔ [52] اور الٹ جانے والی بستی کو گرا مارا۔ [53] پس ڈھانپ دیا اسے جس سے ڈھانپا ۔ [54] پس تو اپنے رب کی نعمتوںمیں سے کس میں شک کرے گا؟ [55] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] نطفہ سے جبکہ وه ٹپکایا جاتا ہے [46] اور یہ کہ اسی کے ذمہ دوباره پیدا کرنا ہے [47] اور یہ کہ وہی مالدار بناتا ہے اور سرمایہ دیتا ہے [48] اور یہ کہ وہی شعریٰ (ستارے) کا رب ہے [49] اور یہ کہ اس نے عاد اول کو ہلاک کیا ہے [50] اور ﺛمود کو بھی (جن میں سے) ایک کو بھی باقی نہ رکھا [51] اور اس سے پہلے قوم نوح کو، یقیناً وه بڑے ﻇالم اور سرکش تھے [52] اور مؤتفکہ (شہر یا الٹی ہوئی بستیوں کو) اسی نے الٹ دیا [53] پھر اس پر چھا دیا جو چھایا [54] پس اے انسان تو اپنے رب کی کس کس نعمت کے بارے میں جھگڑے گا؟ [55]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (یعنی) نطفے سے جو (رحم میں) ڈالا جاتا ہے [46] اور یہ کہ (قیامت کو) اسی پر دوبارہ اٹھانا لازم ہے [47] اور یہ کہ وہی دولت مند بناتا اور مفلس کرتا ہے [48] اور یہ کہ وہی شعریٰ کا مالک ہے [49] اور یہ کہ اسی نے عاد اول کو ہلاک کر ڈالا [50] اور ثمود کو بھی۔ غرض کسی کو باقی نہ چھوڑا [51] اور ان سے پہلے قوم نوحؑ کو بھی۔ کچھ شک نہیں کہ وہ لوگ بڑے ہی ظالم اور بڑے ہی سرکش تھے [52] اور اسی نے الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا [53] پھر ان پر چھایا جو چھایا [54] تو (اے انسان) تو اپنے پروردگار کی کون سی نعمت پر جھگڑے گا [55]۔ ........................................
جیسے اور جگہ فرمان ہے «أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَىٰ ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ أَلَيْسَ ذَٰلِكَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ»[75-القيامة:40-36] ، ” کیا انسان سمجھتا ہے کہ وہ بےکار چھوڑ دیا جائے گا؟، کیا وہ منی کا قطرہ نہ تھا، جو (رحم میں) ٹپکایا جاتا ہے؟، پھر کیا وہ بستہ خون نہ تھا؟، پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست کیا اور اس سے جوڑے یعنی نرو مادہ بنائے، کیا (ایسی قدرتوں والا) اللہ اس بات پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے۔“
پھر فرماتا ہے اسی پر دوبارہ زندہ کرنا، یعنی جیسے اس نے ابتداء پیدا کیا اسی طرح مار ڈالنے کے بعد دوبارہ کی پیدائش بھی اسی کے ذمہ ہے، اسی نے اپنے بندوں کو غنی بنا دیا اور مال ان کے قبضہ میں دے دیا ہے جو ان کے پاس ہی بطور پونجی کے رہتا ہے۔
8969
اکثر مفسرین کے کلام کا خلاصہ اس مقام پر یہی ہے گو بعض سے مروی ہے کہ اس نے مال دیا اور غلام دئیے، اس نے دیا اور خوش ہوا، اسے غنی بنا کر اور مخلوق کو اس کا دست نگر بنا دیا، جسے چاہا غنی کیا، جسے چاہا فقیر لیکن یہ پچھلے دونوں قول لفظ سے کچھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتے۔
«شعریٰ» اس روشن ستارے کا نام ہے جسے «مِرْزَم الْجَوْزَاء» بھی کہتے ہیں بعض عرب اس کی پرستش کرتے تھے۔ عاد و اولیٰ یعنی قوم ہود کو جسے عاد بن ارم بن سام بن نوح بھی کہا جاتا ہے اسی نے ان کی نافرمانی کی بنا پر تباہ کر دیا۔
جیسے فرمایا «أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ»[89-الفجر:6-8] ، یعنی ” کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے عاد کے ساتھ کیا کیا؟ “ یعنی ارم کے ساتھ جو بڑے قدآور تھے جن کا مثل شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا تھا یہ قوم بڑی قوی اور زور آور تھی ساتھ ہی اللہ کی بڑی نافرمان اور رسول سے بڑی سرتاب تھی۔
«وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا»[69-الحاقة:6،7] ان پر ہوا کا عذاب آیا جو سات راتیں اور آٹھ دن برابر رہا، اسی طرح ثمودیوں کو بھی اس نے ہلاک کر دیا جس میں سے ایک بھی باقی نہ بچا اور ان سے پہلے قوم نوح تباہ ہو چکی ہے جو بڑے ناانصاف اور شریر تھے اور لوط کی بستیاں جنہیں رحمن و قہار نے زیر و زبر کر دیا اور آسمانی پتھروں سے سب بدکاروں کا ہلاک کر دیا انہیں ایک چیز نے ڈھانپ لیا یعنی (پتھروں نے)
اور آیت میں ہے «وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنذَرِينَ»[26-الشعراء:173] ” جن کا مینہ ان پر برسا اور برے حالوں تباہ ہوئے۔ “
ان بستیوں میں چار لاکھ آدمی آباد تھے، آبادی کی کل زمین کی آگ اور گندھک اور تیل بن کر ان پر بھڑک اٹھی۔ قتادہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے جو بہت غریب سند سے ابن ابی حاتم میں مروی ہے۔
پھر فرمایا: ” پھر تو اے انسان! اپنے رب کی کس کس نعمت پر جھگڑے گا؟ “ بعض کہتے ہیں خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن خطاب کو عام رکھنا بہت اولیٰ ہے ابن جریر رحمہ اللہ بھی عام رکھنے کو ہی پسند فرماتے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:540/11]