[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد کسی بھی درجے کے ایمان کے ساتھ ان کے پیچھے چلی، ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان سے ان کے عمل میں کچھ کمی نہ کریں گے، ہر آدمی اس کے عوض جو اس نے کمایا گروی رکھا ہوا ہے۔ [21] اور ہم انھیں پھل اور گوشت زیادہ دیں گے اس میں سے جو وہ چاہیں گے۔ [22] وہ اس میںایک دوسرے سے شراب کا پیالہ چھینیں جھپٹیں گے، جس میں نہ بے ہودہ گوئی ہو گی اور نہ گناہ میں ڈالنا۔ [23] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جو لوگ ایمان ﻻئے اور ان کی اوﻻد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اوﻻد کو ان تک پہنچا دیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے، ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے [21] ہم ان کے لیے میوے اورمرغوب گوشت کی ریل پیل کردیں گے [22] (خوش طبعی کے ساتھ) ایک دوسرے سے جام (شراب) کی چھینا جھپٹی کریں گے جس شراب کے سرور میں تو بیہوده گوئی ہوگی نہ گناه [23]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے [21] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے [22] وہاں وہ ایک دوسرے سے جام شراب جھپٹ لیا کریں گے جس (کے پینے) سے نہ ہذیان سرائی ہوگی نہ کوئی گناہ کی بات [23]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 21، 22، 23،
صالح اولاد انمول اثاثہ ٭٭
اللہ تعالیٰ جل شانہ اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم اپنے احسان اور انعام کا بیان فرماتا ہے کہ جن مومنوں کی اولاد بھی ایمان میں اپنے باپ دادا کی راہ میں لگ جائے لیکن اعمال صالحہ میں اپنے بڑوں سے کم ہو پروردگار ان کے نیک اعمال کا بدلہ بڑھا چڑھا کر انہیں ان کے بڑوں کے درجے میں پہنچا دے گا تاکہ بڑوں کی آنکھیں چھوٹوں کو اپنے پاس دیکھ کر ٹھنڈی رہیں اور چھوٹے بھی اپنے بڑوں کے پاس ہشاش بشاش رہیں۔ ان کے عملوں کی بڑھوتری ان کے بزرگوں کے اعمال کی کمی سے نہ کی جائے گی بلکہ محسن و مہربان اللہ انہیں اپنے معمور خزانوں میں سے عطا فرمائے گا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر یہی فرماتے ہیں۔
ایک مرفوع حدیث بھی اس مضمون کی مروی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ جب جنتی شخص جنت میں جائے گا اور اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو نہ پائے گا تو دریافت کرے گا کہ وہ کہاں ہیں جواب ملے گا کہ وہ تمہارے مرتبہ تک نہیں پہنچے یہ کہے گا باری تعالیٰ میں نے تو اپنے لیے اور ان کے لیے نیک اعمال کئے تھے چنانچہ حکم دیا جائے گا اور انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دیا جائے گا۔ یہ بھی مروی ہے کہ جنتیوں کے بچوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کئے وہ تو ان کے ساتھ ملا دئیے جائیں گے لیکن ان کے جو چھوٹے بچے بچپن ہی میں انتقال کر گئے تھے وہ بھی ان کے پاس پہنچا دئیے جائیں گے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، شعبی، سعید بن جبیر، ابراہیم، قتادہ، ابوصالح، ربیع بن انس، ضحاک بن زید رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔
مسند احمد میں ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دو بچوں کی نسبت دریافت کیا جو زمانہ جاہلیت میں مرے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ دونوں جہنم میں ہیں“، پھر جب مائی صاحبہ کو غمگین دیکھا تو فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تمہارے دل میں ان کا بغض پیدا ہو جاتا، مائی صاحبہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! میرا بچہ جو آپ سے ہوا وہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جنت میں ہے مومن مع اپنی اولاد کے جنت میں ہیں۔“ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی۔
یہ تو ہوئی ماں باپ کے اعمال صالحہ کی وجہ سے اولاد کی بزرگی اب اولاد کی دعا خیر کی وجہ سے ماں باپ کی بزرگی ملاحظہ ہو۔
مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں دفعۃً بڑھاتا ہے، وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ میرا یہ درجہ کیسے بڑھ گیا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تیری اولاد نے تیرے لیے استغفار کیا اس بنا پر میں نے تیرا درجہ بڑھا دیا“۔ [مسند احمد:509/2:حسن] اس حدیث کی اسناد بالکل صحیح ہیں گو بخاری مسلم میں ان لفظوں سے نہیں آئی۔
لیکن اس جیسی ایک روایت صحیح مسلم میں اسی طرح مروی ہے کہ ابن آدم کے مرتے ہی اس کے اعمال موقوف ہو جاتے ہیں لیکن تین عمل کہ وہ مرنے کے بعد بھی ثواب پہنچاتے رہتے ہیں، صدقہ جاریہ، علم دین جس سے نفع پہنچتا ہے، نیک اولاد جو مرنے والے کے لیے دعائے خیر کرتی رہے ۔ [صحیح مسلم:1631]
چونکہ یہاں بیان ہوا تھا کہ مومنوں کی اولاد کے درجے بےعمل بڑھا دئیے گئے تھے تو ساتھ ہی ساتھ اپنے اس فضل کے بعد اپنے عدل کا بیان فرماتا ہے کہ کسی کو کسی کے اعمال میں پکڑا نہ جائے گا بلکہ ہر شخص اپنے اپنے عمل میں رہن ہو گا، باپ کا بوجھ بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر نہ ہو گا۔
8866
جیسے اور جگہ ہے «كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ» * «إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ» * «فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ» * «عَنِ الْمُجْرِمِينَ»[74-المدثر:41-38] ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے مگر وہ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پہنچے وہ جنتوں میں بیٹھے ہوئے گنہگاروں سے دریافت کرتے ہیں۔
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان جنتیوں کو قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کے گوشت دئیے جاتے ہیں، جس چیز کو جی چاہے، جس پر دل آئے وہ یک لخت موجود ہو جاتی ہے، شراب طہور کے چھلکتے ہوئے جام ایک دوسرے کو پلا رہے ہیں، جس کے پینے سے سرور اور کیف لطف اور بہار حاصل ہوتا ہے لیکن بدزبانی بےہودہ گوئی نہیں ہوتی، ہذیان نہیں بکتے، بیہوش نہیں ہوتے، سچا سرور اور پوری خوشی حاصل، بک جھک سے دور، گناہ سے غافل، باطل وکذب سے دور، غیبت و گناہ سے نفور، دنیا میں شرابیوں کی حالت دیکھی ہو گی کہ ان کے سر میں چکر، پیٹ میں درد، عقل زائل، بکواس بہت، بو بری، چہرے بے رونق، اسی طرح شراب کے بدذائقہ اور بدبو یہاں جنت کی شراب ان تمام گندگیوں سے کوسوں دور ہے «بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ» * «لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَ»[37-الصافات:46،47] یہ رنگ میں سفید، پینے میں خوش ذائقہ، نہ اس کے پینے سے حواس معطل ہوں، نہ بک جھک ہو، نہ بہکیں، نہ بھٹکیں، نہ مستی ہو، نہ اور کسی طرح ضرر پہنچائے، ہنسی خوشی اس پاک شراب کے جام پلا رہے ہوں گے۔