تفسير ابن كثير



سورۃ الحجرات

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ[11]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ کوئی عورتیں دوسری عورتوں سے، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ اپنے لوگوں پر عیب لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں کے ساتھ پکارو، ایمان کے بعد فاسق ہونا برا نام ہے اور جس نے توبہ نہ کی سو وہی اصل ظالم ہیں۔ [11]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ﻇالم لوگ ہیں [11]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔ اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام (رکھنا) گناہ ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں [11]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 11،

ہر طعنہ باز عیب جو مجرم ہے ٭٭

اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں کو حقیر و ذلیل کرنے اور ان کا مذاق اڑانے سے روک رہا ہے، حدیث شریف میں ہے تکبر حق سے منہ موڑ لینے اور لوگوں کو ذلیل و خوار سمجھنے کا نام ہے ۔ [صحیح مسلم:91] ‏‏‏‏

اس کی وجہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی کہ ” جسے تم ذلیل کر رہے ہو جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو ممکن ہے کہ اللہ کے نزدیک وہ تم سے زیادہ باوقعت ہو “۔

مردوں کو منع کر کے پھر خاصتہً عورتوں کو بھی اس سے روکا اور اس ملعون خصلت کو حرام قرار دیا، چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے «وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ» [104-الهمزة:1] ‏‏‏‏ یعنی ” ہر طعنہ باز عیب جو کے لیے خرابی ہے “۔

«هُمَزَ» فعل سے ہوتا ہے اور «لُّمَزَةِ» قول سے۔

ایک اور آیت میں ہے «هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ» [68-القلم:11] ‏‏‏‏ یعنی ” وہ جو لوگوں کو حقیر گنتا ہو۔ “ ان پر چڑھا چلا جا رہا ہو اور لگانے بجھانے والا ہو غرض ان تمام کاموں کو ہماری شریعت نے حرام قرار دیا۔

یہاں لفظ تو یہ ہیں کہ اپنے آپ کو عیب نہ لگاؤ مطلب یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ، جیسے فرمایا: «وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَ‌حِيمًا» [4-النساء:29] ‏‏‏‏ یعنی ” ایک دوسرے کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے“۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، مجاہد، سعید بن جبیر، قتادہ، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کو طعنے نہ دے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:391/11:] ‏‏‏‏

پھر فرمایا کسی کو چڑاؤ مت! جس لقب سے وہ ناراض ہوتا ہو اس لقب سے اسے نہ پکارو، نہ اس کو برا نام دو۔

مسند احمد میں ہے کہ یہ حکم بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے میں آئے تو یہاں ہر شخص کے دو دو تین تین نام تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو کسی نام سے پکارتے تو لوگ کہتے، یا رسول اللہ ! یہ اس سے چڑتا ہے۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ [سنن ابوداود:4962،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

پھر فرمان ہے کہ ” ایمان کی حالت میں فاسقانہ القاب سے آپس میں ایک دوسرے کو نامزد کرنا نہایت بری بات ہے اب تمہیں اس سے توبہ کرنی چاہیئے ورنہ ظالم گنے جاؤ گے “۔
8668



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.