[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول ہے، اگر وہ بہت سے کاموں میں تمھارا کہا مان لے تو یقینا تم مشکل میں پڑ جاؤ اور لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میںمزین کر دیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں۔ [7] اللہ کی طرف سے فضل اور نعمت کی وجہ سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [8] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، اگر وه تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں، تو تم مشکل میں پڑجاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناه کو اور نافرمانی کو تمہارے نگاہوں میں ناپسندیده بنا دیا ہے، یہی لوگ راه یافتہ ہیں [7] اللہ کے احسان وانعام سے اور اللہ دانا اور باحکمت ہے [8]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جان رکھو کہ تم میں خدا کے پیغمبرﷺ ہیں۔ اگر بہت سی باتوں میں وہ تمہارا کہا مان لیا کریں تو تم مشکل میں پڑ جاؤ لیکن خدا نے تم کو ایمان عزیز بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر اور گناہ اور نافرمانی سے تم کو بیزار کردیا۔ یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں [7] (یعنی) خدا کے فضل اور احسان سے۔ اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے [8]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 7، 8،
باب
پھر فرماتا ہے کہ جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں ان کی تعظیم و توقیر کرنا عزت و ادب کرنا ان کے احکام کو سر آنکھوں سے بجا لانا تمہارا فرض ہے، وہ تمہاری مصلحتوں سے بہت آگاہ ہیں، انہیں تم سے بہت محبت ہے، وہ تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتے۔ تم اپنی بھلائی کے اتنے خواہاں اور اتنے واقف نہیں ہو جتنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
چنانچہ اور جگہ ارشاد ہے «النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا»[33-الأحزاب:6] یعنی ” مسلمانوں کے معاملات میں ان کی اپنی بہ نسبت نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے لیے زیادہ خیر اندیش ہیں “۔
پھر بیان فرمایا کہ ” لوگو تمہاری عقلیں تمہاری مصلحتوں اور بھلائیوں کو نہیں پا سکتیں انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پا رہے ہیں۔ پس اگر وہ تمہاری ہر پسندیدگی کی رائے پر عامل بنتے رہیں تو اس میں تمہارا ہی حرج واقع ہو گا۔ “
جیسے اور آیت میں ہے «وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ بَلْ أَتَيْنَاهُم بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ»[23-المؤمنون:71] یعنی ” اگر سچا رب ان کی خوشی پر چلے تو آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز خراب ہو جائے یہ نہیں بلکہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن یہ اپنی نصیحت پر دھیان ہی نہیں دھرتے “۔
پھر فرماتا ہے کہ ” اللہ نے ایمان کو تمہارے نفسوں میں محبوب بنا دیا ہے اور تمہارے دلوں میں اس کی عمدگی بٹھا دی ہے “۔
مسند احمد میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”اسلام ظاہر ہے اور ایمان دل میں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کرتے اور فرماتے تقویٰ یہاں ہے، پرہیزگاری کی جگہ یہ ہے“۔ [سلسلة احادیث ضعیفه البانی:6906]
اس نے تمہارے دلوں میں کبیرہ گناہ اور تمام نافرمانیوں کی عداوت ڈال دی ہے اس طرح بتدریج تم پر اپنی نعمتیں بھرپور کر دی ہیں۔ پھر ارشاد ہوتا ہے جن میں یہ پاک اوصاف ہیں انہیں اللہ نے رشد نیکی ہدایت اور بھلائی دے رکھی ہے۔
8661
مسند احمد میں ہے احد کے دن جب مشرکین ٹوٹ پڑے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”درستگی کے ساتھ ٹھیک ٹھاک ہو جاؤ، تو میں نے اپنے رب عزوجل کی ثنأ بیان کروں“، پس لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صفیں باندھ کر کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی: «اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ، اللَّهُمَّ لاَ قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلاَ بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ، وَلاَ هَادِيَ لِمَنْ أَضْلَلْتَ، وَلاَ مُضِلَّ لِمَنْ هَدَيْتَ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلاَ مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ، وَلاَ مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، اللَّهُمَّ ابْسُطْ عَلَيْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ، وَرَحْمَتِكَ، وَفَضْلِكَ، وَرِزْقِكَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ الْمُقِيمَ الَّذِي لاَ يَحُولُ وَلاَ يَزُولُ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ يَوْمَ الْعَيْلَةِ، وَالأَمْنَ يَوْمَ الْخَوْفِ، اللَّهُمَّ إِنِّي عَائِذٌ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أَعْطَيْتَنَا وَشَرِّ مَا مَنَعْتَنَا، اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الإِيمَانَ وَزِيِّنْهُ فِي قُلُوبِنَا، وَكَرِّهْ إِلَيْنَا الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ، وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِينَ، اللَّهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ، وَأَحْيِنَا مُسْلِمِينَ، وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِينَ غَيْرَ خَزَايَا وَلاَ مَفْتُونِينَ، اللَّهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ، وَاجْعَلْ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، اللَّهُمَّ قَاتِلِ الكَفَرَةَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ، إِلَهَ الْحَقِّ»[نسائی] یعنی ”اے اللہ! تمام تر تعریف تیرے ہی لیے ہے، تو جسے کشادگی دے اسے کوئی تنگ نہیں کر سکتا اور جس پر تو تنگی کرے اسے کوئی کشادہ نہیں کر سکتا، تو جسے گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور جسے تو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، جس سے تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جسے تو دے اس سے کوئی باز نہیں رکھ سکتا، جسے تو دور کر دے اسے قریب کرنے والا کوئی نہیں اور جسے تو قریب کر لے اسے دور ڈالنے والا کوئی نہیں، اے اللہ! ہم پر اپنی برکتیں رحمتیں فضل اور رزق کشادہ کر دے، اے اللہ! میں تجھ سے وہ ہمیشہ کی نعمتیں چاہتا ہوں جو نہ ادھر ادھر ہوں، نہ زائل ہوں۔ اللہ! فقیری اور احتیاج والے دن مجھے اپنی نعمتیں عطا فرمانا اور خوف والے دن مجھے امن عطا فرمانا۔ پروردگار! جو تو نے مجھے دے رکھا ہے اور جو نہیں دیا ان سب کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے میرے معبود! ہمارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دے اور اسے ہماری نظروں میں زینت دار بنا دے اور کفر، بدکاری اور نافرمانی سے ہمارے دل میں دوری اور عداوت پیدا کر دے اور ہمیں راہ یافتہ لوگوں میں کر دے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اسلام کی حالت میں فوت کر اور اسلام پر ہی زندہ رکھ اور نیک کار لوگوں سے ملا دے، ہم رسوا نہ ہوں، ہم فتنے میں نہ ڈالے جائیں۔ اللہ! ان کافروں کا ستیاناس کر جو تیرے رسولوں کو جھٹلائیں اور تیری راہ سے روکیں تو ان پر اپنی سزا اور اپنا عذاب نازل فرما۔ الٰہی! اہل کتاب کے کافروں کو بھی تباہ کر، اے سچے معبود“۔ [مسند احمد:2424/3:صحیح] یہ حدیث امام نسائی بھی اپنی کتاب [عمل الیوم واللیله] میں لائے ہیں۔
مرفوع حدیث میں ہے جس شخص کو اپنی نیکی اچھی لگے اور برائی اسے ناراض کرے وہ مومن ہے ۔ [سنن ترمذي:2165،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر فرماتا ہے یہ بخشش جو تمہیں عطا ہوئی ہے یہ تم پر اللہ کا فضل ہے اور اس کی نعمت ہے اللہ مستحقین ہدایت کو اور مستحقین ضلالت کو بخوبی جانتا ہے وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے۔