[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک وہ لوگ جو تجھے دیواروں کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں ان کے اکثر نہیں سمجھتے۔ [4] اور اگر وہ صبر کرتے، یہاں تک کہ تو ان کی طرف نکلتا تو یقینا ان کے لیے بہتر ہوتا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ [5] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (بالکل) بے عقل ہیں [4] اگر یہ لوگ یہاں تک صبر کرتے کہ آپ خود سے نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہی ان کے لئے بہتر ہوتا، اور اللہ غفور ورحیم ہے [5]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں [4] اور اگر وہ صبر کئے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس آتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا۔ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے [5]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 4، 5،
آداب خطاب ٭٭
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت بیان کرتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکانوں کے پیچھے سے آپ کو آوازیں دیتے اور پکارتے ہیں۔ جس طرح اعراب میں دستور تھا تو فرمایا کہ ” ان میں سے اکثر بےعقل ہیں “۔
پھر اس کی بابت ادب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ” چاہیئے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں ٹھہر جاتے اور جب آپ مکان سے باہر نکلتے تو آپ سے جو کہنا ہوتا کہتے “، نہ کہ آوازیں دے کر باہر سے پکارتے۔ دنیا اور دین کی مصلحت اور بہتری اسی میں تھی۔
8654
پھر حکم دیتا ہے کہ ” ایسے لوگوں کو توبہ استغفار کرنا چاہیئے کیونکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے “۔ یہ آیت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا، آپ کا نام لے کر پکارا ”یا محمد! یا محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا، تو اس نے کہا: سنئے، یا رسول اللہ! میرا تعریف کرنا بڑائی کا سبب ہے اور میرا مذمت کرنا ذلت کا سبب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی ذات محض اللہ تعالیٰ کی ہی ہے“۔ [مسند احمد:488/3:صحیح لغیرہ]
بشر بن غالب نے حجاج کے سامنے بشر بن عطارد وغیرہ سے کہا کہ تیری قوم بنو تمیم کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ جب سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ عالم ہوتے تو اس کے بعد کی آیت «يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُل لَّا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُم بَلِ اللَّـهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ»[49-الحجرات:17] پڑھ دیتے یعنی ” اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو، بلکہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو “ اور بنو اسد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کرنے میں کچھ دیر نہیں کی۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کچھ عرب جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں اس شخص کے پاس لے چلو اگر وہ سچا نبی ہے تو سب سے زیادہ اس سے سعادت حاصل کرنے کے مستحق ہم ہیں اور اگر وہ بادشاہ ہے تو ہم اس کے پروں تلے پل جائیں گے۔ میں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا پھر وہ لوگ آئے اور حجرے کے پیچھے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر آپ کو پکارنے لگے، اس پر یہ آیت اتری، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑ کر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کر دی اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کر دی“۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:382/11:حسن]