[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔ [29] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اﺛر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، مثل اسی کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وه موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ﺛواب کا وعده کیا ہے [29]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] محمدﷺ خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل، (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (خدا کے آگے) جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں۔ اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔ (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے [29]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 29،
تصدیق رسالت بزبان الہ ٭٭
ان آیتوں میں پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت و ثنا بیان ہوئی کہ آپ اللہ کے برحق رسول ہیں پھر آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی صفت و ثنا بیان ہو رہی ہے کہ وہ مخالفین پر سختی کرنے والے اور مسلمانوں پر نرمی کرنے والے ہیں جیسے اور آیت میں ہے «أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ»[5-المائدة:54] مومنوں کے سامنے نرم کفار کے مقابلہ میں گرم، ہر مومن کی یہی شان ہونی چاہیئے کہ وہ مومنوں سے خوش خلقی اور متواضع رہے اور کفار پر سختی کرنے والا اور کفر سے ناخوش رہے۔
قرآن حکیم فرماتا ہے «يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ»[9-التوبة:123] ” ایمان والو! اپنے پاس کے کافروں سے جہاد کرو، وہ تم میں سختی محسوس کریں “۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”آپس کی محبت اور نرم دلی میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر کسی ایک عضو میں درد ہو تو سارا جسم بےقرار ہو جاتا ہے کبھی بخار چڑھ آتا ہے کبھی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے“۔ [صحیح بخاری:6011]
8638
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”مومن مومن کے لیے مثل دیوار کے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تقویت پہنچاتا ہے اور مضبوط کرتا ہے، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ملا کر بتائیں“۔ [صحیح مسلم:2446]
پھر ان کا اور وصف بیان فرمایا کہ نیکیاں بکثرت کرتے ہیں خصوصاً نماز جو تمام نیکیوں سے افضل و اعلیٰ ہے، پھر ان کی نیکیوں میں چار چاند لگانے والی چیز کا بیان یعنی ان کے خلوص اور رضائے اللہ طلبی کا کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں۔ یہ اپنے اعمال کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں جو جنت ہے اور اللہ کے فضل سے انہیں ملے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی رضا مندی بھی انہیں عطا فرمائے گا جو بہت بڑی چیز ہے۔
جیسے فرمایا «وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ»[9-التوبة:72] ” اللہ تعالیٰ کی ذرا سی رضا بھی سب سے بڑی چیز ہے۔ “
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ چہروں پر سجدوں کے اثر سے علامت ہونے سے مراد اچھے اخلاق ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:370/11] مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں خشوع اور تواضع ہے۔
8639
منصور رحمہ اللہ مجاہد رحمہ اللہ سے کہتے ہیں میرا تو یہ خیال تھا کہ اس سے مراد نماز کا نشان ہے جو ماتھے پر پڑ جاتا ہے، آپ نے فرمایا یہ تو ان کی پیشانیوں پر بھی ہوتا ہے جن کے دل فرعون سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں نماز ان کے چہرے اچھے کر دیتی ہے۔
بعض سلف سے منقول ہے جو رات کو بکثرت نماز پڑھے گا اس کا چہرہ دن کو خوبصورت ہو گا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ابن ماجہ کی ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون ہے۔ [سنن ابن ماجہ:1333،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے بعض بزرگوں کا قول ہے کہ نیکی کی وجہ سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے چہرے پر روشنی آتی ہے، روزی میں کشادگی ہوتی ہے، لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔
امیرالمؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے اندرونی پوشیدہ حالات کی اصلاح کرے اور بھلائیاں پوشیدگی سے کرے، اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کی سلوٹوں پر اور اس کی زبان کے کناروں پر ان نیکیوں کو ظاہر کر دیتا ہے الغرض دل کا آئینہ چہرہ ہے، جو اس میں ہوتا ہے اس کا اثر چہرہ پر ہوتا ہے۔ پس مومن جب اپنے دل کو درست کر لیتا ہے، اپنا باطن سنوار لیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی لوگوں کی نگاہوں میں سنوار دیتا ہے امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص اپنے باطن کی اصلاح کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی آراستہ و پیراستہ کر دیتا ہے۔
8640
طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”جو شخص جیسی بات کو پوشیدہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کی چادر اڑھا دیتا ہے اگر وہ پوشیدگی بھلی ہے تو بھلائی کی اور اگر بری ہے تو برائی کی“۔ [اسنادہ موضوع] لیکن اس کا ایک راوی عراقی متروک ہے۔
مسند احمد میں آپ کا فرمان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی ٹھوس چٹان میں گھس کر جس کا نہ کوئی دروازہ ہو، نہ اس میں کوئی سوراخ ہو کوئی عمل کرے گا، اللہ اسے بھی لوگوں کے سامنے رکھ دے گا برائی ہو تو یا بھلائی ہو تو“۔ [مسند احمد:28/3:ضعیف]
مسند کی اور حدیث میں ہے نیک طریقہ، اچھا خلق، میانہ روی نبوت کے پچیسویں حصہ میں سے ایک حصہ ہے۔ [سنن ترمذي:2010،قال الشيخ الألباني:حسن]
8641
الغرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیتیں خالص تھیں اعمال اچھے تھے پس جس کی نگاہ ان کے پاک چہروں پر پڑتی تھی اسے ان کی پاکبازی جچ جاتی تھی اور وہ ان کے چال چلن اور ان کے اخلاق اور ان کے طریقہ کار پر خوش ہوتا تھا۔
امام مالک رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے شام کا ملک فتح کیا جب وہاں کے نصرانی ان کے چہرے دیکھتے تو بےساختہ پکار اٹھتے، اللہ کی قسم یہ عیسیٰ کے حواریوں سے بہت ہی بہتر و افضل ہیں۔ فی الواقع ان کا یہ قول سچا ہے، اگلی کتابوں میں اس امت کی فضیلت و عظمت موجود ہے اور اس امت کی صف اول ان کے بہتر بزرگ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور خود ان کا ذکر بھی اگلی اللہ کی کتابوں میں اور پہلے کے واقعات میں موجود ہے۔ پس فرمایا یہی مثال ان کی توراۃ میں ہے۔
پھر فرماتا ہے اور ان کی مثال انجیل کی مانند کھیتی کے بیان کی گئی ہے جو اپنا سبزہ نکالتی ہے پھر اسے مضبوط اور قوی کرتی ہے پھر وہ طاقتور اور موٹا ہو جاتا ہے اور اپنی بال پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے اب کھیتی والے کی خوشی کا کیا پوچھنا ہے؟
اسی طرح اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ انہوں نے آپ کی تائید و نصرت کی پس وہ آپ کے ساتھ وہی تعلق رکھتے ہیں جو پٹھے اور سبزے کو کھیتی سے تھا یہ اس لیے کہ کفار شرمسار ہوں۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے رافضیوں کے کفر پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے چڑتے اور ان سے بغض رکھنے والا کافر ہے۔
علماء کی ایک جماعت بھی اس مسئلہ میں امام صاحب کے ساتھ ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل میں اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی کرنے میں بہت سی احادیث آئی ہیں خود اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریفیں بیان کیں اور ان سے اپنی رضا مندی کا اظہار کیا ہے کیا ان کی بزرگی میں یہ کافی نہیں؟
پھر فرماتا ہے ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے گناہ معاف اور انکا اجر عظیم اور رزق کریم ثواب جزیل اور بدلہ کبیر ثابت یاد رہے کہ «منھم» میں جو «من» ہے وہ یہاں بیان جنس کے لیے ہے، اللہ کا یہ سچا اور اٹل وعدہ ہے جو نہ بدلے، نہ خلاف ہو ان کے قدم بقدم چلنے والوں، ان کی روش پر کاربند ہونے والوں سے بھی اللہ کا یہ وعدہ ثابت ہے لیکن فضیلت اور سبقت کمال اور بزرگی جو انہیں ہے امت میں سے کسی کو حاصل نہیں، اللہ ان سے خوش، اللہ ان سے راضی، یہ جنتی ہو چکے اور بدلے پالئے۔
8642
صحیح مسلم شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”کو برا نہ کہو ان کی بےادبی اور گستاخی نہ کرو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے تین پاؤ اناج بلکہ ڈیڑھ پاؤ اناج کے اجر کو بھی نہیں پا سکتا“۔ [صحیح مسلم:2540]