[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] یا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں کوئی بیماری ہے، یہ خیال کر لیا ہے کہ اللہ ان کے کینے کبھی ظاہر نہیں کرے گا۔ [29] اور اگر ہم چاہیں تو ضرور تجھے وہ لوگ دکھادیں، پھر یقینا تو انھیں ان کی نشانی سے پہچان لے گا اور تو انھیں بات کے انداز سے ضرور ہی پہچان لے گا اور اللہ تمھارے اعمال جانتا ہے۔ [30] اور ہم ضرور ہی تمھیں آزمائیں گے،یہاں تک کہ تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اور صبر کرنے والوں کو جان لیں اور تمھارے حالات جانچ لیں۔ [31] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اللہ ان کے کینوں کو ﻇاہر نہ کرے گا [29] اور اگر ہم چاہتے تو ان سب کو تجھے دکھا دیتے پس تو انہیں ان کے چہرے سے ہی پہچان لیتا، اور یقیناً تو انہیں ان کی بات کے ڈھب سے پہچان لے گا، تمہارے سب کام اللہ کو معلوم ہیں [30] یقیناً ہم تمہارا امتحان کریں گے تاکہ تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو ﻇاہر کر دیں اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کر لیں [31]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ خدا ان کے کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا؟ [29] اور اگر ہم چاہتے تو وہ لوگ تم کو دکھا بھی دیتے اور تم ان کو ان کے چہروں ہی سے پہچان لیتے۔ اور تم انہیں (ان کے) انداز گفتگو ہی سے پہچان لو گے! اور خدا تمہارے اعمال سے واقف ہے [30] اور ہم تو لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے والے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں۔ اور تمہارے حالات جانچ لیں [31]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 29، 30، 31،
منافق کو اس کے چہرے کی زبان سے پہچانو ٭٭
یعنی کیا منافقوں کا خیال ہے کہ ان کی مکاری اور عیاری کا اظہار اللہ مسلمانوں پر کرے گا ہی نہیں؟ یہ بالکل غلط خیال ہے اللہ تعالیٰ ان کا مکر اس طرح واضح کر دے گا کہ ہر عقلمند انہیں پہچان لے اور ان کی بدباطنی سے بچ سکے۔ ان کے بہت سے احوال سورۃ براۃ میں بیان کئے گئے اور ان کے نفاق کی بہت سی خصلتوں کا ذکر وہاں کیا گیا۔ یہاں تک کہ اس سورت کا دوسرا نام ہی «فاضحہ» رکھ دیا گیا یعنی منافقوں کو فضیحت کرنے والی۔
«اَضْغَانَ» جمع ہے «ضِّغْنُ» کی، «ضِّغْنُ» کہتے ہیں دلی حسد و بغض کو۔ اس کے بعد اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اے نبی! اگر ہم چاہیں تو ان کے وجود تمہیں دکھا دیں پس تم انہیں کھلم کھلا جان جاؤ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا ان تمام منافقوں کو بتا نہیں دیا تاکہ اس کی مخلوق پر پردہ پڑا رہے ان کے عیوب پوشیدہ رہیں، اور باطنی حساب اسی ظاہر و باطن جاننے والے کے ہاتھ رہے لیکن ہاں تم ان کی بات چیت کے طرز اور کلام کے ڈھنگ سے ہی انہیں صاف پہچان لو گے۔
8543
امیرالمؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں“ جو شخص کسی پوشیدگی کو چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے چہرے پر اور اس کی زبان پر ظاہر کر دیتا ہے۔“
حدیث شریف میں ہے جو شخص کسی راز کو پردہ میں رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس پر عیاں کر دیتا ہے وہ بہتر ہے تو اور بدتر ہے تو ۔ ہم نے شرح صحیح بخاری کے شروع میں عملی اور اعتقادی نفاق کا بیان پوری طرح کر دیا ہے جس کے دوہرانے کی یہاں ضرورت نہیں۔ حدیث میں منافقوں کی ایک جماعت کی (تعیین) آ چکی ہے۔ [طبرانی کبیر:1702:ضعیف]
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ”تم میں بعض لوگ منافق ہیں پس جس کا میں نام لوں وہ کھڑا ہو جائے۔ اے فلاں کھڑا ہو جا، یہاں تک کہ چھتیس اشخاص کے نام لیے۔“ پھر فرمایا: ”تم میں، یا تم میں سے، منافق ہیں، پس اللہ سے ڈرو۔“ اس کے بعد ان لوگوں میں سے ایک کے سامنے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ گزرے وہ اس وقت کپڑے میں اپنا منہ لپیٹے ہوا تھا۔ آپ اسے خوب جانتے تھے پوچھا کہ کیا ہے؟ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اوپر والی حدیث بیان کی تو آپ نے فرمایا: اللہ تجھے غارت کرے ۔ [مسند احمد:273/5:ضعیف]
پھر فرمایا ہے ہم حکم احکام دے کر، روک ٹوک کر کے تمہیں خود آزما کر معلوم کر لیں گے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں؟ اور صبر کرنے والے کون ہیں؟ اور ہم تمہارے احوال آزمائیں گے۔ یہ تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی اس علام الغیوب کو ہر چیز، ہر شخص اور اس کے اعمال معلوم ہیں تو یہاں مطلب یہ ہے کہ دنیا کے سامنے کھول دے اور اس حال کو دیکھ لے اور دکھا دے اسی لیے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس جیسے مواقع پر «لِنَعْلَمَ» کے معنی کرتے تھے «ِلنَریٰ» یعنی تا کہ ہم دیکھ لیں۔