تفسير ابن كثير



سورۃ الأحقاف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ[15] أُولَئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ[16]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی، اس کی ماں نے اسے ناگواری کی حالت میں اٹھائے رکھا اور اسے ناگواری کی حالت میں جنا اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے، یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچا اور چالیس برس کو پہنچ گیا تو اس نے کہا اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں وہ نیک عمل کروں جسے تو پسند کرتا ہے اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح فرما دے، بے شک میں نے تیری طرف توبہ کی اور بے شک میں حکم ماننے والوں سے ہوں۔ [15] یہی وہ لوگ ہیں کہ ہم ان سے وہ سب سے اچھے عمل قبول کرتے ہیں جو انھوں نے کیے اور ان کی برائیوں سے در گزر کرتے ہیں، جنت والوں میں، سچے وعدے کے مطابق جو ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ [16]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔ یہاں تک کہ جب وه پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا ﻻؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اوﻻد بھی صالح بنا، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں [15] یہی وه لوگ ہیں جن کے نیک اعمال تو ہم قبول فرما لیتے ہیں اور جن کے بداعمال سے درگزر کر لیتے ہیں، (یہ) جنتی لوگوں میں ہیں۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا تھا [16]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا۔ اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوڑنا ڈھائی برس میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے۔ اور میرے لئے میری اولاد میں صلاح (وتقویٰ) دے۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں [15] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے اور ان کے گناہوں سے درگزر فرمائیں گے اور (یہی) اہل جنت میں (ہوں گے) ۔ (یہ) سچا وعدہ (ہے) جو ان سے کیا جاتا ہے [16]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 15، 16،

والدین سے بہترین سلوک کرو ٭٭

اس سے پہلے چونکہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عبادت کے اخلاص کا اور اس پر استقامت کرنے کا حکم ہوا تھا اس لیے یہاں ماں باپ کے حقوق کی بجا آوری کا حکم ہو رہا ہے۔ اسی مضمون کی اور بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں۔

جیسے فرمایا «وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا» [17-الإسراء:23] ‏‏‏‏ یعنی ” تیرا رب یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو “۔

اور آیت میں ہے «أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ» [31-لقمان:14] ‏‏‏‏ یعنی ” میرا شکر کر اور اپنے والدین کا لوٹنا تو میری ہی طرف ہے “ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں۔

پس یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ «وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا» [29-العنكبوت:8] ‏‏‏‏ ” ہم نے انسان کو حکم کیا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ان سے تواضع سے پیش آؤ “۔
8449

ابوداؤد طیالسی میں حدیث ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی والدہ نے آپ سے کہا کہ کیا ماں باپ کی اطاعت کا حکم اللہ نے نہیں دیا؟ سن میں نہ کھانا کھاؤں گی، نہ پانی پیوں گی، جب تک تو اللہ عزوجل کے ساتھ کفر نہ کرے، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے انکار پر اس نے یہی کیا کہ کھانا پینا چھوڑ دیا یہاں تک کہ لکڑی سے اس کا منہ کھول کر جبراً پانی وغیرہ چھوا دیتے، اس پر یہ آیت اتری یہ حدیث مسلم شریف وغیرہ میں بھی ہے ۔ [صحیح مسلم:1748] ‏‏‏‏

ماں نے حالت حمل میں کیسی کچھ تکلیفیں برداشت کی ہیں؟ اسی طرح بچہ ہونے کے وقت کیسی کیسی مصیبتوں کا وہ شکار بنی ہے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت سے اور اس کے ساتھ سورۃ لقمان کی آیت «وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ» ۔ [31-لقمان:14] ‏‏‏‏

اور اللہ عزوجل کا فرمان «وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ» [2-البقرة:233] ‏‏‏‏ یعنی مائیں اپنے بچوں کو دو سال کامل دودھ پلائیں ان کے لیے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہیں ملا کر استدلال کیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔ یہ استدلال بہت قوی اور بالکل صحیح ہے۔
8450

سیدنا عثمان اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نے بھی اس کی تائید کی ہے معمر بن عبداللہ جہنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے قبیلے کے ایک شخص نے جہنیہ کی ایک عورت سے نکاح کیا چھ مہینے پورے ہوتے ہی اسے بچہ تولد ہوا اس کے خاوند نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا آپ نے اس عورت کے پاس آدمی بھیجا وہ تیار ہو کر آنے لگی تو ان کی بہن نے گریہ و زاری شروع کر دی اس بیوی صاحبہ نے اپنی بہن کو تسکین دی اور فرمایا: کیوں روتی ہو، اللہ کی قسم! اس کی مخلوق میں سے کسی سے میں نہیں ملی میں نے کبھی کوئی برا فعل نہیں کیا، تو دیکھو کہ اللہ کا فیصلہ میرے بارے میں کیا ہوتا ہے، جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس یہ آئیں تو آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا۔ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے خلیفۃ المسلمین سے دریافت کیا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ اس عورت کو نکاح کے چھ مہینے کے بعد بچہ ہوا ہے جو ناممکن ہے۔ یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا؟ فرمایا: ہاں پڑھا ہے فرمایا: کیا یہ آیت نہیں پڑھی «وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا» [46-الأحقاف:15] ‏‏‏‏ اور ساتھ ہی یہ آیت بھی «حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ» [2-البقرة:233] ‏‏‏‏ پس مدت حمل اور مدت دودھ پلائی دونوں کے مل کر تیس مہینے اور اس میں سے جب دودھ پلائی کی کل مدت دو سال کے چوبیس وضع کر دئیے جائیں تو باقی چھ مہینے رہ جاتے ہیں، تو قرآن کریم سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے اور اس بیوی صاحبہ کو بھی اتنی ہی مدت میں بچہ ہوا، پھر اس پر زنا کا الزام کیسے قائم کر رہے ہیں؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واللہ! یہ بات بہت ٹھیک ہے، افسوس میرا خیال ہے میں اس طرف نہیں گیا، جاؤ اس عورت کو لے آؤ پس لوگوں نے اس عورت کو اس حال پر پایا کہ اسے فراغت ہو چکی تھی۔ معمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں، واللہ! ایک کوا دوسرے کوے سے اور ایک انڈا دوسرے انڈے سے بھی اتنا مشابہ نہیں ہوتا جتنا اس عورت کا یہ بچہ اپنے باپ سے مشابہ تھا، خود اس کے والد نے بھی اسے دیکھ کر کہا: اللہ کی قسم! اس بچے کے بارے میں مجھے اب کوئی شک نہیں رہا اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک ناسور کے ساتھ مبتلا کیا جو اس کے چہرے پر تھا وہ ہی اسے گھلاتا رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا ۔ ابن ابی حاتم [الدالمنثورللسیوطی9/6] ‏‏‏‏
8451

یہ روایت دوسری سند سے «فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ» [43-الزخرف:81] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں ہم نے وارد کی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب کسی عورت کو نو مہینے میں بچہ ہو تو اس کی دودھ پلائی کی مدت اکیس ماہ کافی ہیں اور جب سات مہینے میں ہو تو مدت رضاعت تئیس ماہ اور جب چھ ماہ میں بچہ ہو جائے تو مدت رضاعت دو سال کامل اس لیے کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے۔

جب وہ اپنی پوری قوت کے زمانے کو پہنچا یعنی قوی ہو گیا، جوانی کی عمر میں پہنچ گیا، مردوں کی گنتی میں آیا اور چالیس سال کا ہوا، عقل پوری آئی، فہم و کمال کو پہنچا، حلم اور بردباری آ گئی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ چالیس سال کی عمر میں جو حالت اس کی ہوتی ہے عموماً پھر باقی عمر وہی رہتی ہے۔

مسروق رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ انسان کب اپنے گناہوں پر پکڑا جاتا ہے؟ تو فرمایا: جب تو چالیس سال کا ہو جائے تو اپنا بچاؤ مہیا کر لے۔

ابو یعلیٰ موصلی میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کر دیتا ہے اور جب ساٹھ سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف جھکنا نصیب فرماتا ہے اور جب ستر سال کی عمر کا ہو جاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں ثابت رکھتا ہے اور اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے اور جب نوے سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کے گھرانے کے آدمیوں کے بارے میں اسے شفاعت کرنے والا بناتا ہے اور آسمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی زمین میں اس کا قیدی ہے ۔ [مجمع الزوائد204/10ضعیف] ‏‏‏‏

یہ حدیث دوسری سند سے مسند احمد میں بھی ہے۔ [مسند احمد:217/3:ضعیف] ‏‏‏‏

بنو امیہ کے دمشقی گورنر حجاج بن عبداللہ حکمی فرماتے ہیں کہ چالیس سال کی عمر میں تو میں نے نافرمانیوں اور گناہوں کو لوگوں کی شرم و حیاء سے چھوڑا تھا اس کے بعد گناہوں کے چھوڑنے کا باعث خود ذات اللہ سے حیاء تھی۔ عرب شاعر کہتا ہے بچپنے میں ناسمجھی کی حالت میں تو جو کچھ ہو گیا ہو گیا لیکن جس وقت بڑھاپے نے منہ دکھایا تو سر کی سفیدی نے خود ہی برائیوں سے کہہ دیا کہ اب تم کوچ کر جاؤ۔

پھر اس کی دعا کا بیان ہو رہا ہے کہ اس نے کہا میرے پرورودگار میرے دل میں ڈال کہ تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام فرمائی اور میں وہ اعمال کروں جن سے تو مستقبل میں خوش ہو جائے اور میری اولاد میں میرے لیے اصلاح کر دے یعنی میری نسل اور میرے پیچھے والوں میں، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میرا اقرار ہے کہ میں فرنبرداروں میں ہوں۔ اس میں ارشاد ہے کہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر انسان کو پختہ دل سے اللہ کی طرف توبہ کرنی چاہیئے اور نئے سرے سے اللہ کی طرف رجوع و رغبت کر کے اس پر جم جانا چاہیئے۔
8452

ابوداؤد میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم التحیات میں پڑھنے کے لیے اس دعا کی تعلیم کیا کرتے تھے «اللَّهُمَّ أَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِنَا، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا، وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَبَارِكْ لَنَا فِي أَسْمَاعِنَا، وَأَبْصَارِنَا، وَقُلُوبِنَا، وَأَزْوَاجِنَا، وَذُرِّيَّاتِنَا، وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ، وَاجْعَلْنَا شَاكِرِينَ لِنِعْمِكَ مُثْنِينَ بِهَا عَلَيْكَ، قَابِلِينَ لَهَا، وَأَتِمِمْهَا عَلَيْنَا» یعنی، اے اللہ! ہمارے دلوں میں الفت ڈال اور ہمارے آپس میں اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہیں دکھا اور ہمیں اندھیروں سے بچا کر نور کی طرف نجات دے اور ہمیں ہر برائی سے بچا لے، خواہ وہ ظاہر ہو، خواہ چھپی ہوئی ہو اور ہمیں ہمارے کانوں میں اور آنکھوں میں اور دلوں میں اور بیوی بچوں میں برکت دے اور ہم پر رجوع فرما، یقیناً تو رجوع فرمانے والا مہربان ہے اے اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گزار اور ان کے باعث اپنا ثنا خواں اور نعمتوں کا اقراری بنا اور اپنی بھرپور نعمتیں ہمیں عطا فرما ۔ [سنن ابوداود:969،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
8453

پھر فرماتا ہے یہ جن کا بیان گزرا جو اللہ کی طرف توبہ کرنے والے اس کی جانب میں جھکنے والے اور جو نیکیاں چھوٹ جائیں انہیں کثرت استغفار سے پا لینے والے ہی وہ ہیں جن کی اکثر لغزشیں ہم معاف فرما دیتے ہیں اور ان کے تھوڑے نیک اعمال کے بدلے ہم انہیں جنتی بنا دیتے ہیں ان کا یہی حکم ہے جیسے کہ وعدہ کیا اور فرمایا یہ وہ سچا وعدہ ہے جو ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

ابن جریر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بروایت روح الامین علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: انسان کی نیکیاں اور بدیاں لائی جائیں گی اور ایک کو ایک کے بدلے میں کیا جائے گا پس اگر ایک نیکی بھی بچ رہی تو اللہ تعالیٰ اسی کے عوض اسے جنت میں پہنچا دے گا۔‏‏‏‏ راوی حدیث نے اپنے استاد سے پوچھا اگر تمام نیکیاں ہی برائیوں کے بدلے میں چلی جائیں تو؟ آپ نے فرمایا: ان کی برائیوں سے اللہ رب العزت تجاوز فرما لیتا ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:286/11:ضعیف] ‏‏‏‏
8454

دوسری سند میں یہ بفرمان اللہ عزوجل مروی ہے۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند بہت پختہ ہے، یوسف بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ اہل بصرہ پر غالب آئے اس وقت میرے ہاں مجمد بن حاطب رحمہ اللہ آئے۔ ایک دن مجھ سے فرمانے لگے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا اور اس وقت سیدنا عمار، صعصعہ، اشتر، محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ بعض لوگوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر نکالا اور کچھ گستاخی کی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس وقت تخت پر بیٹھے ہوئے تھے، ہاتھ میں چھڑی تھی۔ حاضرین مجلس میں سے کسی نے کہا کہ آپ کے سامنے تو آپ کی اس بحث کا صحیح محاکمہ کرنے والے موجود ہی ہیں، چنانچہ سب لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا۔ اس پر آپ نے فرمایا: عثمان ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں اللہ عزوجل فرماتا ہے «اُولٰىِٕكَ الَّذِيْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَـيِّاٰتِهِمْ فِيْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّةِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ» [46-الأحقاف:16] ‏‏‏‏ قسم اللہ کی یہ لوگ جن کا ذکر اس آیت میں ہے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کے ساتھی، تین مرتبہ یہی فرمایا۔ راوی یوسف کہتے ہیں میں نے محمد بن حاطب رحمہ اللہ سے پوچھا: سچ کہو، تمہیں اللہ کی قسم تم نے خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ سنا ہے؟ فرمایا: ہاں، قسم اللہ کی میں نے خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ سنا ہے ۔
8455



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.