[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور بلاشبہ یقینا ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکم اور نبوت دی اور انھیں پاکیزہ چیزوںسے رزق دیا اور انھیں جہانوں پر فضیلت بخشی۔ [16] اور انھیں (دین کے) معاملے میں واضح احکام عطا کیے، پھر انھوںنے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آگیا، آپس میں ضد کی وجہ سے،بے شک تیرا رب ان کے درمیان قیامت کے دن اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ [17] پھر ہم نے تجھے (دین کے) معاملے میں ایک واضح راستے پر لگا دیا، سو اسی پر چل اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چل جو نہیں جانتے۔ [18] بلاشبہ وہ اللہ کے مقابلے میں ہرگز تیرے کسی کام نہ آئیں گے اور یقینا ظالم لوگ، ان کے بعض بعض کے دوست ہیں اور اللہ متقی لوگوں کا دوست ہے۔ [19] یہ لوگوں کے لیے سمجھ کی باتیں ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں ہدایت اور رحمت ہے۔ [20] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب، حکومت اور نبوت دی تھی، اور ہم نے انہیں پاکیزه (اور نفیس) روزیاں دی تھیں اور انہیں دنیا والوں پر فضیلت دی تھی [16] اور ہم نے انہیں دین کی صاف صاف دلیلیں دیں، پھر انہوں نے اپنے پاس علم کے پہنچ جانے کے بعد آپس کی ضد بحﺚ سے ہی اختلاف برپا کر ڈاﻻ، یہ جن جن چیزوں میں اختلاف کر رہے ہیں ان کا فیصلہ قیامت والے دن ان کے درمیان (خود) تیرا رب کرے گا [17] پھر ہم نے آپ کو دین کی (ﻇاہر) راه پر قائم کردیا، سو آپ اسی پر لگے رہیں اور نادانوں کی خواہشوں کی پیروی میں نہ پڑیں [18] (یاد رکھیں) کہ یہ لوگ ہرگز اللہ کے سامنے آپ کے کچھ کام نہیں آسکتے۔ (سمجھ لیں کہ) ﻇالم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہوتے ہیں اور پرہیزگاروں کا کارساز اللہ تعالیٰ ہے [19] یہ (قرآن) لوگوں کے لیے بصیرت کی باتیں اور ہدایت ورحمت ہے اس قوم کے لیے جو یقین رکھتی ہے [20]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب (ہدایت) اور حکومت اور نبوت بخشی اور پاکیزہ چیزیں عطا فرمائیں اور اہل عالم پر فضیلت دی [16] اور ان کو دین کے بارے میں دلیلیں عطا کیں۔ تو انہوں نے جو اختلاف کیا تو علم آچکنے کے بعد آپس کی ضد سے کیا۔ بےشک تمہارا پروردگار قیامت کے دن ان میں ان باتوں کا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے فیصلہ کرے گا [17] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر (قائم) کر دیا تو اسی (رستے) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا [18] یہ خدا کے سامنے تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔ اور ظالم لوگ ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔ اور خدا پرہیزگاروں کا دوست ہے [19] یہ قرآن لوگوں کے لئے دانائی کی باتیں ہیں اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لئے ہدایت اور رحمت ہے [20]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 16، 17، 18، 19، 20،
بنی اسرائیل پر اللہ تعالٰی کے خصوصی انعامات کا تذکرہ ٭٭
بنی اسرائیل پر جو نعمتیں رحیم و کریم اللہ نے انعام فرمائی تھیں ان کا ذکر فرما رہا ہے کہ کتابیں ان پر اتاریں، رسول ان میں بھیجے، حکومت انہیں دی۔ بہترین غذائیں اور ستھری صاف چیزیں انہیں عطا فرمائیں اور اس زمانے کے اور لوگوں پر انہیں برتری دی اور انہیں امر دین کی عمدہ اور کھلی ہوئی دلیلیں پہنچا دیں اور ان پر حجت اللہ قائم ہو گئی۔ پھر ان لوگوں نے پھوٹ ڈالی اور مختلف گروہ بن گئے اور اس کا باعث بجز نفسانیت اور خودی کے اور کچھ نہ تھا۔ اے نبی! تیرا رب ان کے ان اختلافات کا فیصلہ قیامت کے دن خود ہی کر دے گا۔
اس میں اس امت کو چوکنا کیا گیا ہے کہ خبردار تم ان جیسے نہ ہونا، ان کی چال نہ چلنا اسی لیے اللہ جل و علا نے فرمایا کہ تو اپنے رب کی وحی کا تابعدار بنا رہ، مشرکوں سے کوئی مطلب نہ رکھ، بےعلموں کی ریس نہ کر، یہ تجھے اللہ کے ہاں کیا کام آئیں گے؟ ان کی دوستیاں تو ان میں آپس میں ہی ہیں، یہ تو اپنے ملنے والوں کو نقصان ہی پہنچایا کرتے ہیں۔ پرہیزگاروں کا ولی و ناصر رفیق و کار ساز پروردگار عالم ہے، جو انہیں اندھیروں سے ہٹا کر نور کی طرف لے جاتا ہے اور کافروں کے دوست شیاطین ہیں، جو انہیں روشنی سے ہٹا کر اندھیریوں میں جھونکتے ہیں یہ قرآن ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں دلائل کے ساتھ ہی ہدایت و رحمت ہے۔