[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور یقینا اگر تو ان سے پوچھے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیںگے کہ اللہ نے ،پھر کہاں بہکائے جاتے ہیں۔ [87] قسم ہے رسول کے ’’یا رب ‘‘کہنے کی! کہ بے شک یہ ایسے لوگ ہیں جو ایمان نہیں لائیں گے۔ [88] پس ان سے درگزر کر اورکہہ سلام ہے، پس عنقریب وہ جان لیں گے۔ [89] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقیناً یہ جواب دیں گے کہ اللہ نے، پھر یہ کہاں الٹے جاتے ہیں؟ [87] اور ان کا (پیغمبر کا اکثر) یہ کہنا کہ اے میرے رب! یقیناً یہ وه لوگ ہیں جو ایمان نہیں ﻻتے [88] پس آپ ان سے منھ پھیر لیں اور کہہ دیں۔ (اچھا بھائی) سلام! انہیں عنقریب (خود ہی) معلوم ہوجائے گا [89]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہہ دیں گے کہ خدا نے۔ تو پھر یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں؟ [87] اور (بسااوقات) پیغمبر کہا کرتے ہیں کہ اے پروردگار یہ ایسے لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے [88] تو ان سے منہ پھیر لو اور سلام کہہ دو۔ ان کو عنقریب (انجام) معلوم ہوجائے گا [89]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 87، 88، 89،
مشرکین کی کم عقلی ٭٭
پھر فرماتا ہے کہ ” ان سے اگر تو پوچھے کہ ان کا خالق کون ہے؟ تو یہ اقرار کریں گے کہ اللہ ہی ہے “۔ افسوس کہ خالق اسی ایک کو مان کر پھر عبادت دوسروں کی بھی کرتے ہیں جو محض مجبور اور بالکل بے قدرت ہیں اور کبھی اپنی عقل کو کام میں نہیں لاتے کہ جب پیدا اسی ایک نے کیا تو ہم دوسرے کی عبادت کیوں کریں؟ جہالت و خباثت کند ذہنی اور بیوقوفی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایسی سیدھی سی بات مرتے دم تک سمجھ نہ آئی۔ بلکہ سمجھانے سے بھی نہ سمجھا۔
اسی لیے تعجب سے ارشاد ہوا کہ ” اتنا مانتے ہوئے پھر کیوں اندھے ہو جاتے ہو؟ “ پھر ارشاد ہے کہ ” محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا یہ کہنا کہا “، یعنی اپنے رب کی طرف شکایت کی اور اپنی قوم کی تکذیب کا بیان کیا کہ یہ ایمان قبول نہیں کرتے۔
8311
جیسے اور آیت میں ہے «وَقَال الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا» [25-الفرقان:30] یعنی ” رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شکایت اللہ کے سامنے ہو گی کہ میری امت نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا “۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی یہی تفسیر بیان کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت «وَقَالَ الرَّسُوْلُ يَا رَبِّ هَؤُلَاءِ» الخ ہے۔ اس کی ایک توجیہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ آیت «اَمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ بَلٰى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُوْنَ»[43-الزخرف:80] پر معطوف ہے دوسرے یہ کہ یہاں فعل مقدر مانا جائے یعنی «قَالَ» کو مقدر مانا جائے۔
دوسری قرأت یعنی لام کے زیر کے ساتھ جب ہو تو یہ عجب ہو گا آیت «وَعِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ»[43-الزخرف:85] پر تو تقدیر یوں ہو گی کہ ” قیامت کا علم اور اس قول کا علم اس کے پاس ہے “۔
ختم سورۃ پر ارشاد ہوتا ہے کہ ” مشرکین سے منہ موڑ لے اور ان کی بد زبانی کا بد کالمی سے جواب نہ دو بلکہ ان کے دل پر چانے کی خاطر قول میں اور فعل میں دونوں میں نرمی برتو کہہ دو کہ سلام ہے۔ انہیں ابھی حقیقت حال معلوم ہو جائے گی “۔
اس میں رب قدوس کی طرف سے مشرکین کو بڑی دھمکی ہے اور یہی ہو کر بھی رہا کہ ان پر وہ عذاب آیا جو ان سے ٹل نہ سکا حق جل و علا نے اپنے دین کو بلند و بالا کیا اپنے کلمہ کو چاروں طرف پھیلا دیا اپنے موحد مومن اور مسلم بندوں کو قوی کر دیا اور پھر انہیں جہاد کے اور جلا وطن کرنے کے احکام دے کر اس طرح دنیا میں غالب کر دیا اللہ کے دین میں بےشمار آدمی داخل ہوئے اور مشرق و مغرب میں اسلام پھیل گیا «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔