[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] ان کے گرد سونے کے تھال اور پیالے لے کر پھرا جائے گا اور اس میں وہ چیز ہو گی جس کی دل خواہش کریں گے اور آنکھیں لذت پائیں گی اورتم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو۔ [71] اور یہی وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو، اس کی وجہ سے جو تم عمل کرتے تھے۔ [72] تمھارے لیے اس میں بہت سے میوے ہیں، جن سے تم کھاتے ہو۔ [73] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ان کے چاروں طرف سے سونے کی رکابیاں اور سونے کے گلاسوں کا دور چلایا جائے گا، ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں، سب وہاں ہوگا اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے [71] یہی وه بہشت ہے کہ تم اپنے اعمال کے بدلے اس کے وارث بنائے گئے ہو [72] یہاں تمہارے لیے بکثرت میوے ہیں جنہیں تم کھاتے رہو گے [73]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ان پر سونے کی پرچوں اور پیالوں کا دور چلے گا۔ اور وہاں جو جی چاہے اور جو آنکھوں کو اچھا لگے (موجود ہوگا) اور (اے اہل جنت) تم اس میں ہمیشہ رہو گے [71] اور یہ جنت جس کے تم مالک کر دیئے گئے ہو تمہارے اعمال کا صلہ ہے [72] وہاں تمہارے لئے بہت سے میوے ہیں جن کو تم کھاؤ گے [73]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 71، 72، 73،
جنت کی نعمتیں ٭٭
چاروں طرف سے ان کے سامنے طرح طرح کے ملذذ مرغن خوش ذائقہ مرغوب کھانوں کی طشتریاں رکابیاں اور پیالیاں پیش ہوں گی اور چھلکتے ہوئے جام ہاتھوں میں لیے غلمان ادھر ادھر گردش کر رہے ہوں گے۔ «تَشْـتَهیْـهِ الْاَنْفُسُ» اور «تَشْتَهِی الْاَنْفُسُ» دونوں قرأتیں ہیں۔ یعنی انہیں مزیدار خوشبو والے اچھی رنگت والے من مانے کھانے پینے ملیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے نیچے درجے کا جنتی جو سب سے آخر میں جنت میں جائے گا اس کی نگاہ سو سال کے راستے تک جاتی ہو گی لیکن برابر وہاں تک اسے اپنے ہی ڈیرے اور محل سونے کے زمرد کے نظر آئیں گے جو تمام کے تمام قسم قسم اور رنگ برنگ کے سازو سامان سے پر ہوں گے صبح شام ستر ستر ہزار رکابیاں پیالے الگ الگ وضع کے کھانے سے پر اس کے سامنے رکھے جائیں گے جن میں سے ہر ایک اس کی خواہش کے مطابق ہو گا۔ اور اول سے آخر تک اس کے اشتہاء برابر اور یکساں رہے گی۔ اگر وہ روئے زمین والوں کی دعوت کر دے تو سب کو کفایت ہو جائے اور کچھ نہ گھٹے ۔ [تفسیر عبدالرزاق:2785:مرسل]
8291
ابن ابی حاتم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جنتی ایک لقمہ اٹھائے گا اور اس کے دل میں خیال آئے گا کہ فلاں قسم کا کھانا ہوتا تو اچھا ہوتا چنانچہ وہ نوالہ اس کے منہ میں وہ چیز بن جائے گا جس کی اس نے خواہش کی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ [ضعیف]
مسند احمد میں ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے ادنیٰ مرتبے کے جنتی کے بالاخانے کی سات منزلیں ہوں گی یہ چھٹی منزل میں ہو گا اور اس کے اوپر ساتویں ہو گی اس کے تیس خادم ہوں گے جو صبح شام تین سو سونے کے برتنوں میں اس کے طعام و شراب پیش کریں گے ہر ایک میں الگ الگ قسم کا عجیب و غریب اور نہایت لذیز کھانا ہو گا اول سے آخر تک اسے کھانے کی اشتہاء ویسی ہی رہے گی۔ اسی طرح تین سو سونے کے پیالوں اور کٹوروں اور گلاسوں میں اسے پینے کی چیزیں دی جائیں گی۔ وہ بھی ایک سے ایک سوا ہو گی یہ کہے گا کہ اے اللہ اگر تو مجھے اجازت دے تو میں تمام جنتیوں کی دعوت کروں۔ سب بھی اگر میرے ہاں کھا جائیں تو بھی میرے کھانے میں کمی نہیں آ سکتی اور اس کی بہتر بیویاں حور عین میں سے ہوں گی۔ اور دنیا کی بیویاں الگ ہوں گی۔ ان میں سے ایک ایک میل میل بھر کی جگہ میں بیٹھے گی پھر ساتھ ہی ان سے کہا جائے گا کہ یہ نعمتیں بھی ہمیشہ رہنے والی ہیں اور تم بھی یہاں ہمیشہ رہو گے۔ نہ موت آئے نہ گھاٹا آئے نہ جگہ بدلے نہ تکلیف پہنچے ۔ [مسند احمد:537/2:ضعیف]
پھر ان پر اپنا فضل و احسان بتایا جاتا ہے کہ ” تمہارے اعمال کا بدلہ میں نے اپنی وسیع رحمت سے تمہیں یہ دیا ہے “۔ کیونکہ کوئی شخص بغیر رحمت اللہ کے صرف اپنے اعمال کی بناء پر جنت میں نہیں جا سکتا۔ البتہ جنت کے درجوں میں تفاوت جو ہو گا وہ نیک اعمال کے تفاوت کی وجہ سے ہو گا۔
8292
ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جہنمی اپنی جنت کی جگہ جہنم میں دیکھیں گے اور حسرت و افسوس سے کہیں گے «أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّـهَ هَدَانِي لَكُنتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ»[39-الزمر:57] ” اگر اللہ تعالیٰ مجھے بھی ہدایت کرتا تو میں بھی متقیوں میں ہو جاتا “۔ اور ہر ایک جنتی بھی اپنی جہنم کی جگہ جنت میں سے دیکھے گا اور اللہ کا شکر کرتے ہوئے کہے گا کہ «الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَـٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّـهُ»[7-الأعراف:43] ” ہم خود اپنے طور پر راہ راست کے حاصل کرنے پر قادر نہ تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے خود ہماری رہنمائی نہ کرتا “۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر ہر شخص کی ایک جگہ جنت میں ہے اور ایک جگہ جہنم میں۔ پس کافر مومن کی جہنم کی جگہ کا وارث ہو گا۔ اور مومن کافر کی جنت کی جگہ کا وارث ہو گا یہی فرمان باری ہے ” اس جنت کے وارث تم بہ سبب اپنے اعمال کے بنائے گئے ہو “۔
کھانے پینے کے ذکر کے بعد اب میووں اور ترکاریوں کا بیان ہو رہا ہے کہ ” یہ بھی بہ کثرت مرغوب طبع انہیں ملیں گی۔ جس قسم کی یہ چاہیں اور ان کی خواہش ہو “۔ غرض بھرپور نعمتوں کے ساتھ رب کے رضا مندی کے گھر میں ہمیشہ رہیں گے اللہ ہمیں بھی نصیب فرمائے۔ آمین۔