تفسير ابن كثير



سورۃ الشوريٰ

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ[16] اللَّهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ[17] يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ[18]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، اس کے بعد کہ اس کی دعوت قبول کر لی گئی، ان کی دلیل ان کے رب کے نزدیک باطل ہے اور ان پر بڑا غضب ہے اور ان کے لیے بہت سخت سزا ہے۔ [16] اللہ وہ ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب نازل کی اور میزان بھی، اور تجھے کون سی چیز آگاہ کرتی ہے، شاید کہ قیامت قریب ہو۔ [17] اسے وہ لوگ جلدی مانگتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے اور وہ لوگ جو ایمان لائے، وہ اس سے ڈرنے والے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ حق ہے۔ سنو! بے شک وہ لوگ جو قیامت کے بارے میں شک کرتے ہیں یقینا وہ بہت دور کی گمراہی میں ہیں۔ [18]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی باتوں میں جھگڑا ڈالتے ہیں اس کے بعد کہ (مخلوق) اسے مان چکی ان کی کٹ حجتی اللہ کے نزدیک باطل ہے، اور ان پر غضب ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے [16] اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے اور ترازو بھی (اتاری ہے) اور آپ کو کیا خبر شاید قیامت قریب ہی ہو [17] اس کی جلدی انہیں پڑی ہے جو اسے نہیں مانتے اور جو اس پر یقین رکھتے ہیں وه تو اس سے ڈر رہے ہیں انہیں اس کے حق ہونے کا پورا علم ہے۔ یاد رکھو جو لوگ قیامت کے معاملہ میں لڑ جھگڑ رہے ہیں، وه دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں [18]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جو لوگ خدا (کے بارے) میں بعد اس کے کہ اسے (مومنوں نے) مان لیا ہو جھگڑتے ہیں ان کے پروردگار کے نزدیک ان کا جھگڑا لغو ہے۔ اور ان پر (خدا کا) غضب اور ان کے لئے سخت عذاب ہے [16] خدا ہی تو ہے جس نے سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور (عدل وانصاف کی) ترازو۔ اور تم کو کیا معلوم شاید قیامت قریب ہی آ پہنچی ہو [17] جو لوگ اس پر ایمان نہیں رکھتے وہ اس کے لئے جلدی کر رہے ہیں۔ اور جو مومن ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں۔ اور جانتے ہیں کہ وہ برحق ہے۔ دیکھو جو لوگ قیامت میں جھگڑتے ہیں وہ پرلے درجے کی گمراہی میں ہیں [18]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 16، 17، 18،

منکرین قیامت کے لئے وعیدیں ٭٭

اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو ایمان داروں سے فضول حجتیں کیا کرتے ہیں، انہیں راہ ہدایت سے بہکانا چاہتے ہیں اور اللہ کے دین میں اختلاف پیدا کرتے ہیں۔ ان کی حجت باطل ہے ان پر رب غضبناک ہے۔ اور انہیں قیامت کے روز سخت اور ناقابل برداشت مار ماری جائے گی۔ ان کی طمع پوری ہونی یعنی مسلمانوں میں پھر دوبارہ جاہلیت کی خو بو آنا محال ہے ٹھیک اسی طرح یہود و نصارٰی کا بھی یہ جادو نہیں چلنے دے گا۔ ناممکن ہے کہ مسلمان ان کے موجودہ دین کو اپنے سچے اچھے اصل اور کھرے دین پر ترجیح دیں۔ اور اس دین کو لیں جس میں جھوٹ ملا ہوا ہے جو محرف و مبدل ہے۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور عدل و انصاف اتارا۔ جیسے فرمان باری ہے «لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاس بالْقِسْطِ» ‏‏‏‏ [ 57- الحديد: 25 ] ‏‏‏‏، یعنی ہم نے اپنے رسولوں کو ظاہر دلیلوں کے ساتھ بھیجا قرآن کے ہمراہ کتاب اور میزان اتارا تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں۔ ایک اور آیت میں ہے «‏‏‏‏وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ» ‏‏‏‏ [ 55- الرحمن: 9-7 ] ‏‏‏‏ یعنی آسمان کو اسی نے اونچا کیا اور ترازؤں کو اسی نے رکھا تاکہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو۔ اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو مت گھٹاؤ۔ پھر فرماتا ہے تو نہیں جان سکتا کہ قیامت بالکل قریب ہے اس میں خوف اور لالچ دونوں ہی ہیں اور اس میں دنیا سے بے رغبت کرنا بھی مقصود ہے۔ پھر فرمایا «وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ» [ 34-سبأ: 29 ] ‏‏‏‏ اس کے منکر تو جلدی مچا رہے ہیں کہ قیامت کیوں نہیں آتی؟ وہ کہتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو قیامت قائم کر دو کیونکہ ان کے نزدیک قیامت ہونا محال ہے۔ لیکن ان کے برخلاف ایماندار اس سے کانپ رہے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ روز جزا کا آنا حتمی اور ضروری ہے۔ یہ اس سے ڈر کر وہ اعمال بجا لا رہے ہیں جو انہیں اس روز کام دیں۔
8132

ایک بالکل صحیح حدیث میں ہے جو تقریباً تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہے کہ ایک شخص نے بلند آواز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کب ہو گی؟ یہ واقعہ سفر کا ہے وہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دور تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ہاں وہ یقیناً آنے والی ہے تو بتا کہ تو نے اس کے لیے تیاری کیا کر رکھی ہے؟ اس نے کہا اللہ اور اس کے رسول کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ان کے ساتھ ہو گا جن سے تو محبت رکھتا ہے۔ [صحیح بخاری:6171] ‏‏‏‏

اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ہر شخص اس کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت رکھتا تھا۔ [صحیح بخاری:6171] ‏‏‏‏

یہ حدیث یقیناً متواتر ہے الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کے جواب میں قیامت کے وقت کا تعین نہیں کیا بلکہ سائل کو اس دن کے لیے تیاری کرنے کو فرمایا پس قیامت کے آنے کے وقت علم کا سوائے اللہ کے کسی اور کو نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ قیامت کے آنے میں جو لوگ جھگڑ رہے ہیں اور اس کے منکر ہیں اسے محال جانتے ہیں وہ نرے جاہل ہیں سچی سمجھ صحیح عقل سے دور پڑے ہوئے ہیں سیدھے راستے سے بھٹک کر بہت دور نکل گئے ہیں۔ تعجب ہے کہ زمین و آسمان کا ابتدائی خالق اللہ کو مانیں اور انسان کو مار ڈالنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دینے پر اسے قادر نہ جانیں جس نے بغیر کسی نمونے کے اور بغیر کسی جز کے ابتداء ً اسے پیدا کر دیا «وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ» [ 30-الروم: 27 ] ‏‏‏‏ تو دوبارہ جب کہ اس کے اجزاء بھی کسی نہ کسی صورت میں کچھ نہ کچھ موجود ہیں اسے پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہے بلکہ عقل سلیم بھی اسے تسلیم کرتی ہے اور اب تو اور بھی آسان ہے۔

8133



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.