تفسير ابن كثير



سورۃ فصلت/حم السجده

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهِ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ[52] سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ[53] أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَاءِ رَبِّهِمْ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ[54]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہہ دے کیا تم نے دیکھا ا گر وہ اللہ کی طرف سے ہوا، پھر تم نے اس کا انکار کر دیا تو اس سے زیادہ کون گمراہ ہو گا جو بہت دور کی مخالفت میں پڑا ہو۔ [52] عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میںاور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہو جائے کہ یہی حق ہے اور کیا تیرا رب کافی نہیں اس بات کے لیے کہ وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ [53] سنو! یقینا وہ لوگ اپنے رب سے ملنے کے بارے میں شک میں ہیں ۔سن لو! یقینا وہ ہر چیز کااحاطہ کرنے والا ہے۔ [54]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] آپ کہہ دیجئے! کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہوا ہو پھر تم نے اسے نہ مانا بس اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہوگا جو مخالفت میں (حق سے) دور چلا جائے [52] عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے، کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاه ہونا کافی نہیں [53] یقین جانو! کہ یہ لوگ اپنے رب کے روبرو جانے سے شک میں ہیں، یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے [54]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کہو کہ بھلا دیکھو اگر یہ (قرآن) خدا کی طرف سے ہو پھر تم اس سے انکار کرو تو اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو (حق کی) پرلے درجے کی مخالفت میں ہو [52] ہم عنقریب ان کو اطراف (عالم) میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ (قرآن) حق ہے۔ کیا تم کو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے خبردار ہے [53] دیکھو یہ اپنے پروردگار کے روبرو حاضر ہونے سے شک میں ہیں۔ سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے [54]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 52، 53، 54،

قرآن کریم کی حقانیت کے بعض دلائل ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ” قرآن کے جھٹلانے والے مشرکوں سے کہہ دو کہ مان لو یہ قرآن سچ مچ اللہ ہی کی طرف سے ہے اور تم اسے جھٹلا رہے ہو تو اللہ کے ہاں تمہارا کیا حال ہو گا؟ “

اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو اپنے کفر اور اپنی مخالفت کی وجہ سے راہ حق سے اور مسلک ہدایت سے بہت دور نکل گیا ہو پھر اللہ تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے کہ ” قرآن کریم کی حقانیت کی نشانیاں اور خصلتیں انہیں ان کے گرد و نواح میں دنیا کے چاروں طرف دکھا دیں گے “۔

مسلمانوں کو فتوحات حاصل ہوں گی وہ سلطنتوں کے سلطان بنیں گے۔ تمام دینوں پر اس دین کو غلبہ ہو گا فتح بدر اور فتح مکہ کی نشانیاں خود ان میں موجود ہوں گی۔

کافر لوگ تعداد اور شان و شوکت میں بہت زیادہ ہوں گے پھر بھی مٹھی بھر اہل حق انہیں زیر و زبر کر دیں گے اور ممکن ہے یہ مراد ہو کہ حکمت الٰہی کی ہزارہا نشانیاں خود انسان کے اپنے وجود میں موجود ہیں اس کی صنعت و بناوٹ اس کی ترکیب و جبلت اس کے جداگانہ اخلاق اور مختلف صورتیں اور رنگ روپ وغیرہ اس کے خالق و صانع کی بہترین یاد گاریں ہر وقت اس کے سامنے ہیں بلکہ اس کی اپنی ذات میں موجود ہیں پھر اس کا ہیر پھیر کبھی کوئی حالت کبھی کوئی حالت۔ بچپن، جوانی، بڑھاپا، بیماری، تندرستی، تنگی، فراخی رنج و راحت وغیرہ اوصاف جو اس پر طاری ہوتے ہیں۔
8104

شیخ ابو جعفر قرشی نے اپنے اشعار میں بھی اسی مضمون کو ادا کیا ہے۔ الغرض یہ بیرونی اور اندرونی آیات قدرت اس قدر ہیں کہ انسان اللہ کی باتوں کی حقانیت کے ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی گواہی بس کافی ہے وہ اپنے بندوں کے اقوال و افعال سے بخوبی واقف ہے۔

جب وہ فرما رہا ہے کہ ” پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو پھر تمہیں کیا شک؟ “ جیسے ارشاد ہے آیت «و لٰكِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ وَالْمَلٰىِٕكَةُ يَشْهَدُوْنَ وَكَفٰي باللّٰهِ شَهِيْدًا» [4-النساء:166] ‏‏‏‏ یعنی ” لیکن اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ جس کو تمہارے پاس بھیجی ہے اور اپنے علم کے ساتھ نازل فرمائی ہے خود گواہی دے رہا ہے اور فرشتے اس کی تصدیق کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے “۔

پھر فرماتا ہے کہ ” دراصل ان لوگوں کو قیامت کے قائم ہونے کا یقین ہی نہیں اسی لیے بے فکر ہیں نیکیوں سے غافل ہیں برائیوں سے بچتے نہیں۔ حالانکہ اس کا آنا یقینی ہے “۔

ابن ابی الدنیا میں ہے کہ خلیفۃ المسلمین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ منبر پر چڑھے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو! میں نے تمہیں کسی نئی بات کے لیے جمع نہیں کیا بلکہ صرف اس لیے جمع کیا ہے کہ تمہیں یہ سنا دوں کہ روز جزا کے بارے میں میں نے خوب غور کیا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے اور اسے جھوٹا جاننے والا ہلاک ہونے والا ہے۔ پھر آپ منبر سے اتر آئے۔‏‏‏‏ آپ رحمہ اللہ کے اس فرمان کا کہ اسے سچا جاننے والا احمق ہے یہ مطلب ہے کہ سچ جانتا ہے پھر تیاری نہیں کرتا اور اس کی دل ہلا دینے والی دہشت ناک حالتوں سے غافل ہے اس سے ڈر کر وہ اعمال نہیں کرتا جو اسے اس روز کے ڈر سے امن دے سکیں پھر اپنے آپ کو اس کا سچا جاننے والا بھی کہتا ہے لہو و لعب غفلت و شہوت گناہ اور حماقت میں مبتلا ہے اور قیام قیامت کے قریب ہو رہا ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

پھر رب العالمین اپنی قدرت کاملہ کو بیان فرما رہا ہے کہ ” ہر چیز پر اس کا احاطہٰ ہے قیام قیامت اس پر بالکل سہل ہے، ساری مخلوق اس کے قبضے میں ہے جو چاہے کرے کوئی اس کا ہاتھ تھام نہیں سکتا جو اس نے چاہا ہوا جو چاہے گا ہو کر رہے گا اس کے سوا حقیقی حاکم کوئی نہیں ہے نہ اس کے سوا کسی اور کی ذات کی کسی قسم کی عبادت کے قابل ہے “۔

الحمدللہ سورۃ فصلت [ حم سجدہ ] ‏‏‏‏ کی تفسیر ختم ہوئی۔
8105



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.