[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اس شخص نے کہا جو ایمان لایا تھا، اے میری قوم! بے شک میں تم پر (گزشتہ) جماعتوں کے دن کی مانند سے ڈرتا ہوں۔ [30] نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور ان لوگوں کے حال کی مانند سے جو ان کے بعد تھے اور اللہ اپنے بندوں پر کسی طرح کے ظلم کا ارادہ نہیں کرتا۔ [31] اور اے میری قوم! یقینا میں تم پر ایک دوسرے کو پکارنے کے دن سے ڈرتا ہوں۔ [32] جس دن تم پیٹھ پھیرتے ہوئے بھاگو گے، تمھارے لیے اللہ سے کوئی بچانے والا نہ ہو گا اور جسے اللہ گمراہ کر دے پھر اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ [33] اور بلاشبہ یقینا اس سے پہلے تمھارے پاس یوسف واضح دلیلیں لے کر آیا تو تم اس کے بارے میں شک ہی میں رہے، جو وہ تمھارے پاس لے کر آیا، یہاں تک کہ جب وہ فوت ہو گیا تو تم نے کہا اس کے بعد اللہ کبھی کوئی رسول نہ بھیجے گا۔ اسی طرح اللہ ہر اس شخص کو گمراہ کرتا ہے جو حد سے بڑھنے والا، شک کرنے والا ہو۔ [34] وہ لوگ جو اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں، بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو، بڑی ناراضی کی بات ہے اللہ کے نزدیک اور ان کے نزدیک جو ایمان لائے۔ اسی طرح اللہ ہر متکبر، سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ [35] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اس مومن نے کہا اے میری قوم! (کے لوگو) مجھے تو اندیشہ ہے کہ تم پر بھی ویسا ہی روز (بد عذاب) نہ آئے جو اور امتوں پر آیا [30] جیسے امت نو ح اور عاد وﺛمود اور ان کے بعد والوں کا (حال ہوا)، اللہ اپنے بندوں پر کسی طرح کا ﻇلم کرنا نہیں چاہتا [31] اور مجھے تم پر ہانک پکار کے دن کابھی ڈر ہے [32] جس دن تم پیٹھ پھیر کر لوٹو گے، تمہیں اللہ سے بچانے واﻻ کوئی نہ ہوگا اور جسے اللہ گمراه کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں [33] اور اس سے پہلے تمہارے پاس (حضرت) یوسف دلیلیں لے کر آئے، پھر بھی تم ان کی ﻻئی ہوئی (دلیل) میں شک و شبہ ہی کرتے رہے یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہو گئی تو کہنے لگے ان کے بعد تو اللہ کسی رسول کو بھیجے گا ہی نہیں اسی طرح اللہ گمراه کرتا ہے ہر اس شخص کو جو حد سے بڑھ جانے واﻻ شک و شبہ کرنے واﻻ ہو [34] جو بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں، اللہ کے نزدیک اور مومنوں کے نزدیک یہ تو بہت بڑی ناراضگی کی چیز ہے، اللہ تعالیٰ اسی طرح ہر ایک مغرور سرکش کے دل پر مہر کردیتا ہے [35]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تو جو مومن تھا وہ کہنے لگا کہ اے قوم مجھے تمہاری نسبت خوف ہے کہ (مبادا) تم پر اور اُمتوں کی طرح کے دن کا عذاب آجائے [30] یعنی) نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور جو لوگ ان کے پیچھے ہوئے ہیں ان کے حال کی طرح (تمہارا حال نہ ہوجائے) اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا [31] اور اے قوم مجھے تمہاری نسبت پکار کے دن (یعنی قیامت) کا خوف ہے [32] جس دن تم پیٹھ پھیر کر (قیامت کے دن سے) بھاگو گے (اس دن) تم کو کوئی (عذاب) خدا سے بچانے والا نہ ہوگا۔ اور جس شخص کو خدا گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں [33] اور پہلے یوسف بھی تمہارے پاس نشانیاں لے کر آئے تھے تو جو وہ لائے تھے اس سے تم ہمیشہ شک ہی میں رہے۔ یہاں تک کہ جب وہ فوت ہوگئے تو تم کہنے لگے کہ خدا اس کے بعد کبھی کوئی پیغمبر نہیں بھیجے گا۔ اسی طرح خدا اس شخص کو گمراہ کر دیتا ہے جو حد سے نکل جانے والا اور شک کرنے والا ہو [34] جو لوگ بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی دلیل آئی ہو خدا کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں۔ خدا کے نزدیک اور مومنوں کے نزدیک یہ جھگڑا سخت ناپسند ہے۔ اسی طرح خدا ہر متکبر سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے [35]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 30، 31، 32، 33، 34، 35،
مرد مومن کی اپنی قوم کو نصیحت ٭٭
اس مومن کی نصیحت کا آخری حصہ بیان ہو رہا ہے کہ اس نے فرمایا دیکھو اگر تم نے اللہ کے رسول کی نہ مانی اور اپنی سرکشی پر اڑے رہے تو مجھے ڈر یہ ہے کہ کہیں سابقہ قوموں کی طرح تم پر بھی عذاب اللہ کا برس نہ پڑے۔ قوم نوح اور قوم عاد ثمود کو دیکھ لو کہ پیغمبروں کی نہ ماننے کے وبال میں ان پر کیسے عذاب آئے؟ اور کوئی نہ تھا جو انہیں ٹالتا یا روکتا۔ اس میں اللہ کا کچھ ظلم نہ تھا اس کی ذات بندوں پر ظلم کرنے سے پاک ہے ان کے اپنے کرتوت تھے جو ان کے لیے وبالِ جان بن گئے، مجھے تم پر قیامت کے دن کے عذاب کا بھی ڈر ہے۔ جو ہانک پکار کا دن ہے۔
صور کی حدیث میں ہے کہ جب زمین میں زلزلہ آئے گا اور پھٹ جائے گی تو لوگ مارے گھبراہٹ کے ادھر ادھر پریشان حواس بھاگنے لگیں گے۔ اور ایک دوسرے کو آواز دیں گے۔ حضررت ضحاک رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب جہنم لائی جائے گی اور لوگ اسے دیکھ کر ڈر کر بھاگیں گے اور فرشتے انہیں میدان محشر کی طرف واپس لائیں گے۔
7949
جیسے فرمان اللہ ہے «وَّالْمَلَكُ عَلٰٓي اَرْجَاۗىِٕهَا ۭ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِيَةٌ»[ 69- الحاقة: 17 ] یعنی فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے۔ اور فرمان ہے «يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ»[ 55- الرحمن: 33 ] ، یعنی اے انسانو! اور جنو! اگر تم زمین و آسمان کے کناروں سے بھاگ نکلنے کی طاقت رکھتے ہو تو نکل بھاگو لیکن یہ تمہارے بس کی بات نہیں۔ حضرت حسن رحمہ اللہ اور حضرت ضحاک رحمہ اللہ کی قرأت میں «یوم التناد» دال کی تشدید کے ساتھ ہے۔ اور یہ ماخوذ ہے «ندالبعیر» سے، جب اونٹ چلا جائے اور سرکشی کرنے لگے تو یہ لفظ کہا جاتا ہے،
کہا گیا ہے کہ جس ترازو میں عمل تولے جائیں گے وہاں ایک فرشتہ ہو گا جس کی نیکیاں بڑھ جائیں گی وہ با آواز بلند پکار کر کہے گا لوگو فلاں کا لڑکا فلاں سعادت والا ہو گیا اور آج کے بعد سے اس پر شقاوت کبھی نہیں آئے گی اور اس کی نیکیاں گھٹ گئیں تو وہ فرشتہ آواز لگائے گا کہ فلاں بن فلاں بدنصیب ہو گیا اور تباہ و برباد ہو گیا۔
7950
حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں قیامت کو «يَوْمَ التَّنَادِ» اس لیے کہا گیا ہے کہ جنتی جنتیوں کو اور جہنمی جہنمیوں کو پکاریں گے اور اعمال کے ساتھ پکاریں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «وَنَادَىٰ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابَ النَّارِ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ۖ قَالُوا نَعَمْ ۚ»[ 7-الأعراف: 44 ] وجہ یہ ہے کہ جنتی دوزخیوں کو پکاریں گے اور کہیں گے کہ ہمارے رب نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے سچ پایا۔ تم بتاؤ کہ کیا تم نے بھی اپنے رب کا وعدہ سچا پایا؟ وہ جواب دیں گے ہاں۔ «وَنَادَىٰ أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّـهُ ۚ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ»[ 7-الأعراف: 50 ] اسی طرح جہنمی جنتیوں کو پکار کر کہیں گے کہ ہمیں تھوڑا سا پانی ہی چھوا دو یا وہ کچھ دے دو جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے۔ جنتی جواب دیں گے کہ یہاں کے کھانے پینے کو اللہ نے کافروں پر حرام کر دیا ہے اسی طرح سورۃ الاعراف میں یہ بھی بیان ہے کہ اعراف والے دوزخیوں اور جنتیوں کو پکاریں گے۔ بغوی وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ تمام باتیں ہیں اور ان سب وجوہ کی بنا پر قیامت کے دن کا نام «يَوْمَ التَّنَادِ» ہے۔ یہی قول بہت عمدہ ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ»
، اس دن لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ لیکن بھاگنے کی کوئی جگہ نہ پائیں گے اور کہہ دیا جائے گا «كَلَّا لَا وَزَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ»[ 75-القيامة: 11، 12 ] آج ٹھہرنے کی جگہ یہی ہے اس دن کوئی نہ ہو گا جو بچا سکے اور اللہ کے عذاب سے چھڑا سکے بات یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی قادر مطلق نہیں وہ جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا،
پھر فرماتا ہے کہ اس سے پہلے اہل مصر کے پاس یوسف علیہ السلام اللہ کے پیغمبر بن کر آئے تھے۔ آپ علیہ السلام کی بعثت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے ہوئی تھی۔ عزیز مصر بھی آپ علیہ السلام ہی تھے اور اپنی امت کو اللہ کی طرف بلاتے تھے۔ لیکن قوم نے ان کی اطاعت نہ کی، ہاں بوجہ دنیوی جاہ کے اور وزارت کے تو انہیں ماتحتی کرنی پڑتی تھی۔ پس فرماتا ہے کہ تم ان کی نبوت کی طرف سے بھی شک میں ہی رہے۔ آخر جب ان کا انتقال ہو گیا تو تم بالکل مایوس ہو گئے اور امید کرتے ہوئے کہنے لگے کہا اب تو اللہ تعالیٰ کسی کو نبی بنا کر بھیجے گا ہی نہیں۔ یہ تھا ان کا کفر اور ان کی تکذیب اسی طرح اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دیتا ہے جو بےجا کام کرنے والا حد سے گزرے جانے والا اور شک شبہ میں مبتلا رہنے والا ہو۔ یعنی جو تمہارا حال ہے یہی حال ان سب کا ہوتا ہے جن کے کام اسراف والے ہوں اور جن کا دل شک شبہ والا ہو، جو لوگ حق کو باطل سے ہٹاتے ہیں اور بغیر دلیل کے دلیلوں کو ٹالتے ہیں اس پر اللہ ان سے ناخوش ہے اور سخت تر ناراض ہے۔ ان کے یہ افعال جہاں اللہ کی ناراضگی کا باعث ہیں وہاں ایمان داروں کی بھی ناخوشی کا ذریعہ ہیں۔ جن لوگوں میں ایسی بیہودہ صفتیں ہوتی ہیں ان کے دل پر اللہ تعالیٰ مہر کر دیتا ہے جس کے بعد انہیں نہ اچھائی اچھی معلوم ہوتی ہے نہ برائی بری لگتی ہے۔ ہر وہ شخص جو حق سے سرکشی کرنے والا ہو اور تکبر و غرور والا ہو۔
حضرت شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جبار وہ شخص ہے جو دو انسانوں کو قتل کر ڈالے۔ حضرت ابوعمران جونی اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم کا فرمان ہے کہ جو بغیر حق کے کسی کو قتل کرے وہ جبار ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔