[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ بے شک میں تھوڑی سی مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ [71] تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گر جاؤ۔ [72] پس تمام فرشتوں، سب کے سب نے سجدہ کیا۔ [73] سوائے ابلیس کے، اس نے تکبر کیا اور کافروں سے ہو گیا۔ [74] فرمایا اے ابلیس!تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس کے لیے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا؟ کیا تو بڑا بن گیا، یا تھا ہی اونچے لوگوں میں سے ؟ [75] اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور تو نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔ [76] فرمایا پھر اس سے نکل جا، کیونکہ بلا شبہ تو مردود ہے۔ [77] اور بے شک تجھ پر جزا کے دن تک میری لعنت ہے۔ [78] اس نے کہا اے میرے رب !پھر مجھے اس دن تک کے لیے مہلت دے جس میں یہ اٹھا ئے جائیں گے۔ [79] فرمایا پس بے شک تو ان لوگوں سے ہے جنھیں مہلت دی گئی۔ [80] مقرر وقت کے دن تک۔ [81] کہا تو قسم ہے تیری عزت کی! کہ میں ضرور بالضرور ان سب کو گمراہ کر دوں گا۔ [82] مگران میں سے تیرے وہ بندے جو چنے ہو ئے ہیں۔ [83] فرمایا پھر حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں۔ [84] کہ میں ضرور بالضرور جہنم کو تجھ سے اور ان سب لوگوں سے بھر دوں گا، جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے۔ [85] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے واﻻ ہوں [71] سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا [72] چنانچہ تمام فرشتوں نے سجده کیا [73] مگر ابلیس نے (نہ کیا)، اس نے تکبر کیا اور وه تھا کافروں میں سے [74] (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجده کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔ کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے [75] اس نے جواب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا، اور اسے مٹی سے بنایا ہے [76] ارشاد ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا تو مردود ہوا [77] اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت وپھٹکار ہے [78] کہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن تک مہلت دے [79] (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے [80] متعین وقت کے دن تک [81] کہنے لگا پھر تو تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو یقیناً بہکا دوں گا [82] بجز تیرے ان بندوں کے جو چیده اور پسندیده ہوں [83] فرمایا سچ تو یہ ہے، اور میں سچ ہی کہا کرتا ہوں [84] کہ تجھ سے اور تیرے تمام ماننے والوں سے میں (بھی) جہنم کو بھر دوں گا [85]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں [71] جب اس کو درست کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا [72] تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا [73] مگر شیطان اکڑ بیٹھا اور کافروں میں ہوگیا [74] خدا نے) فرمایا کہ اے ابلیس جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا۔ کیا تو غرور میں آگیا یا اونچے درجے والوں میں تھا؟ [75] بولا کہ میں اس سے بہتر ہوں (کہ) تو نے مجھ کو کو آگ سے پیدا کیا اور اِسے مٹی سے بنایا [76] فرمایا یہاں سے نکل جا تو مردود ہے [77] اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت (پڑتی) رہے گی [78] کہنے لگا کہ میرے پروردگار مجھے اس روز تک کہ لوگ اٹھائے جائیں مہلت دے [79] فرمایا کہ تجھ کو مہلت دی جاتی ہے [80] اس روز تک جس کا وقت مقرر ہے [81] کہنے لگا کہ مجھے تیری عزت کی قسم میں ان سب کو بہکاتا رہوں گا [82] سوا ان کے جو تیرے خالص بندے ہیں [83] فرمایا سچ (ہے) اور میں بھی سچ کہتا ہوں [84] کہ میں تجھ سے اور جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے سب سے جہنم کو بھر دوں گا [85]۔ ........................................
یہ قصہ سورۃ البقرہ، سورۃ الاعراف، سورۃ الحجر، سورۃ الإسراء، سورۃ الکہف اور اس سورۃ ص میں بیان ہوا ہے۔ آدم کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اپنا ارادہ بتایا کہ میں مٹی سے آدم کو پیدا کرنے والا ہوں۔ جب میں اسے پیدا کر چکوں تو تم سب اسے سجدہ کرنا تاکہ میری فرمانبرداری کے ساتھ ہی آدم کی شرافت و بزرگی کا بھی اظہار ہو جائے۔
پس کل کے کل فرشتوں نے تعمیل ارشاد کی۔ ہاں ابلیس اس سے رکا، یہ فرشتوں کی جنس میں سے تھا بھی نہیں بلکہ جنات میں سے تھا۔ طبعی خباثت اور جبلی سرکشی ظاہر ہو گئی۔ سوال ہوا کہ اتنی معزز مخلوق کو جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تو نے میرے کہنے کے باوجود سجدہ کیوں نہ کیا؟ یہ تکبر! اور یہ سرکشی؟ تو کہنے لگا کہ میں اس سے افضل و اعلیٰ ہوں کہاں آگ اور کہاں مٹی؟ اس خطاکار نے اس کے سمجھنے میں بھی غلطی کی اور اللہ کے حکم کی مخالفت کی وجہ سے غارت ہو گیا حکم ہوا کہ میرے سامنے سے منہ ہٹا میرے دربار میں تجھ جیسے نافرمانوں کی رسائی نہیں تو میری رحمت سے دور ہو گیا اور تجھ پر ابدی لعنت نازل ہوئی اور اب تو خیرو خوبی سے مایوس ہو جا۔
اس نے اللہ سے دعا کی کہ قیامت تک مجھے مہلت دی جائے۔ اس حلیم اللہ نے جو اپنی مخلوق کو ان کے گناہوں پر فوراً نہیں پکڑتا اس کی یہ التجا پوری کر دی اور قیامت تک کی اسے مہلت دے دی۔ اب کہنے لگا میں تو اس کی تمام اولاد کو بہکا دوں گا صرف مخلص لوگ تو بچ جائیں گے۔
7759
اللہ تعالیٰ کو منظور بھی یہی تھا جیسا کہ قرآن کریم کی اور آیتوں میں بھی ہے مثلا «قَالَ اَرَءَيْتَكَ هٰذَا الَّذِيْ كَرَّمْتَ عَلَيَّ ۡ لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلًا»[ 17- الإسراء: 62 ] ، اور «اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ» [ 15- الحجر: 42 ] فالحق کو مجاہد نے پیش سے پڑھا ہے معنی یہ ہیں کہ میں خود حق ہوں اور میری بات بھی حق ہی ہوتی ہے اور ایک روایت میں ان سے یوں مروی ہے کہ حق میری طرف سے ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں اوروں نے دونوں لفظ زبر سے پڑھے ہیں۔ سدی کہتے ہیں یہ قسم ہے۔ میں کہتا ہوں یہ آیت اس آیت کی طرح ہے «وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ»[ 32- السجدة: 13 ] یعنی میرا یہ قول اٹل ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو اس قسم کے انسانوں اور جنوں سے پر کر دونگا اور جیسے فرمان ہے «قَالَ اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا» [ 17-سورة الإسراء: 65 ] ، یہاں سے نکل جا جو شخص بھی تیری مانے گا اس کی اور تیری پوری سزا جہنم ہے۔