[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] قسم ہے ان (جماعتوں) کی جو صف باندھنے والی ہیں! خوب صف باندھنا۔ [1] پھر ان کی جو ڈانٹنے والی ہیں! زبردست ڈانٹنا۔ [2] پھر ان کی جو ذکر کی تلاوت کرنے والی ہیں! [3] کہ بے شک تمھارا معبود یقینا ایک ہے۔ [4] جو آسمانوں اور زمین کا اوران دونوں کے درمیان کی چیزوں کا رب اور تمام مشرقوں کا رب ہے۔ [5] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] قسم ہے صف باندھنے والے (فرشتوں) کی [1] پھر پوری طرح ڈانٹنے والوں کی [2] پھر ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی [3] یقیناً تم سب کا معبود ایک ہی ہے [4] آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں اور مَشرقوں کا رب وہی ہے [5]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] قسم ہے صف باندھنے والوں کی پرا جما کر [1] پھر ڈانٹنے والوں کی جھڑک کر [2] پھر ذکر (یعنی قرآن) پڑھنے والوں کی (غور کرکر) [3] کہ تمہارا معبود ایک ہے [4] جو آسمانوں اور زمین اور جو چیزیں ان میں ہیں سب کا مالک ہے اور سورج کے طلوع ہونے کے مقامات کا بھی مالک ہے [5]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5،
فرشتوں کا تذکرہ ٭٭
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان تینوں قسموں سے مراد فرشتے ہیں۔ اور بھی اکثر حضرات کا یہی قول ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرشتوں کی صفیں آسمانوں پر ہیں۔ مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہمیں سب لوگوں پر تین باتوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی کی گئی ہیں۔ ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔ اور پانی کے نہ ملنے کے وقت زمین کی مٹی ہمارے لیے وضو کے قائم مقام کی گئی ہے ۔ [صحیح مسلم:522]
مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: تم اس طرح صفیں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں ۔ ہم نے کہا وہ کس طرح؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگلی صفوں کو وہ پورا کرتے جاتے ہیں اور صفیں بالکل ملا لیا کرتے ہیں ۔ [صحیح مسلم:430]
ڈانٹنے والوں سے مراد سدی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک ابر اور بادل کو ڈانٹ کر احکام دے کر ادھر سے ادھر لے جانے والے فرشتے ہیں۔
7435
ربیع بن انس رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں قرآن جس چیز سے روکتا ہے وہ اسی سے بندش کرتے ہیں۔ ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والے فرشتے وہ ہیں جو اللہ کا پیغام بندوں کے پاس لاتے ہیں جیسے فرمان ہے «فَالْمُلْقِيٰتِ ذِكْرًا عُذْرًا أَوْ نُذْرًا» [77-المرسلات:6،5] یعنی ” وحی اتارنے والے فرشتوں کی قسم جو عذر کو ٹالنے یا آگاہ کرنے کے لیے ہوتی ہے “۔
ان قسموں کے بعد جس چیز پر یہ قسمیں کھائی گئی ہیں اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ تم سب کا معبود بر حق ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہی آسمان و زمین کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا مالک و متصرف ہے۔ اسی نے آسمان میں ستارے اور چاند سورج کو مسخر کر رکھا ہے، جو مشرق سے ظاہر ہوتے ہیں مغرب میں غروب ہوتے ہیں۔ مشرقوں کا ذکر کر کے مغربوں کا ذکر اس کی دلالت موجود ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا۔
دوسری آیت میں ذکر کر بھی دیا ہے فرمان ہے «رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ»[55-الرحمن:17] یعنی ” جاڑے گرمیوں کی طلوع و غروب کی جگہ کا رب وہی ہے “۔