[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور ان کے لیے بستی والوں کو بطور مثال بیان کر، جب اس میں بھیجے ہوئے آئے۔ [13] جب ہم نے ان کی طرف دو (پیغمبر)بھیجے تو انھوں نے ان دونوں کو جھٹلا دیا، پھر ہم نے تیسرے کے ساتھ تقویت دی تو انھوں نے کہا بے شک ہم تمھاری طرف بھیجے ہوئے ہیں۔ [14] انھوں نے کہا تم ہمارے جیسے بشر ہی تو ہو اور رحمان نے کوئی چیز نازل نہیں کی، تم تو محض جھوٹ ہی کہہ رہے ہو۔ [15] انھوں نے کہا ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم تمھاری طرف ضرور بھیجے ہوئے ہیں۔ [16] اور ہم پر صاف پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں۔ [17] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور آپ ان کے سامنے ایک مثال (یعنی ایک) بستی والوں کی مثال (اس وقت کا) بیان کیجیئے جب کہ اس بستی میں (کئی) رسول آئے [13] جب ہم نے ان کے پاس دو کو بھیجا سو ان لوگوں نے (اول) دونوں کو جھٹلایا پھر ہم نے تیسرے سے تائید کی سو ان تینوں نے کہا کہ ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں [14] ان لوگوں نے کہا کہ تم تو ہماری طرح معمولی آدمی ہو اور رحمٰن نے کہا کوئی چیز نازل نہیں کی۔ تم نرا جھوٹ بولتے ہو [15] ان (رسولوں) نے کہا ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ بےشک ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں [16] اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے [17]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ان سے گاؤں والوں کا قصہ بیان کرو جب ان کے پاس پیغمبر آئے [13] (یعنی) جب ہم نے ان کی طرف دو (پیغمبر) بھیجے تو انہوں نے ان کو جھٹلایا۔ پھر ہم نے تیسرے سے تقویت دی تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری طرف پیغمبر ہو کر آئے ہیں [14] وہ بولے کہ تم (اور کچھ) نہیں مگر ہماری طرح کے آدمی (ہو) اور خدا نے کوئی چیز نازل نہیں کی تم محض جھوٹ بولتے ہو [15] انہوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف (پیغام دے کر) بھیجے گئے ہیں [16] اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے اور بس [17]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 13، 14، 15، 16، 17،
ایک قصہ پارینہ ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرما رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے ساتھ ان سابقہ لوگوں کا قصہ بیان فرمایئے جنہوں نے ان سے پہلے اپنے رسولوں کو ان کی طرح جھٹلایا تھا۔ یہ واقعہ شہر انطاکیہ کا ہے۔ وہاں کے بادشاہ کا نام انطیخش تھا اس کے باپ اور دادا کا نام بھی یہی تھا یہ سب راجہ پرجابت پرست تھے۔ ان کے پاس اللہ کے تین رسول آئے۔ صادق، صدوق اور شلوم۔ اللہ کے درود و سلام ان پر نازل ہوں۔ لیکن ان بدنصیبوں نے سب کو جھٹلایا۔ عنقریب یہ بیان بھی آ رہا ہے کہ بعض بزرگوں نے اسے نہیں مانا کہ یہ واقعہ انطاکیہ کا ہو، پہلے تو اس کے پاس دو رسول آئے انہوں نے انہیں نہیں مانا ان دو کی تائید میں پھر تیسرے نبی آئے، پہلے دو رسولوں کا نام شمعون اور یوحنا تھا اور تیسرے رسول کا نام بولص تھا۔ «علیہم السلام» ان سب نے کہا کہ ہم اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اس نے ہماری معرفت تمہیں حکم بھیجا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ قتادہ بنو عامہ کا خیال ہے کہ یہ تینوں بزرگ جناب مسیح علیہ السلام کے بھیجے ہوئے تھے، بستی کے ان لوگوں نے جواب دیا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو پھر کیا وجہ؟ کہ تمہاری طرف اللہ کی وحی آئے اور ہماری طرف نہ آئے؟ ہاں اگر تم رسول ہوتے تو چاہیئے تھا کہ تم فرشتے ہوتے۔ اکثر کفار نے یہی شبہ اپنے اپنے زمانے کے پیغمبروں کے سامنے پیش کیا تھا۔
جیسے اللہ عزوجل کا ارشاد ہے «ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِيْهِمْ رُسُلُهُمْ بالْبَيِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ يَّهْدُوْنَنَا ۡ فَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَى اللّٰهُ وَاللّٰهُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ»[ 64- التغابن: 6 ] ، یعنی لوگوں کے پاس رسول آئے اور انہوں نے جواب دیا کہ کیا انسان ہمارے ہادی بن کر آ گئے؟ اور آیت میں ہے «قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ»[ 14-إبراهيم: 10 ] ، یعنی تم تو ہم جیسے انسان ہی ہو تم صرف یہ چاہتے ہو کہ ہمیں اپنے باپ دادوں کے معبودوں سے روک دو۔ جاؤ کوئی کھلا غلبہ لے کر آؤ۔
7330
اور جگہ قرآن پاک میں ہے یعنی کافروں نے کہا کہ اگر تم نے اپنے جیسے انسانوں کی تابعداری کی تو یقیناً تم بڑے ہی گھاٹے میں پڑ گئے۔ اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ آیت «وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا»[ 17- الإسراء: 94 ] ، میں اس کا بیان ہے۔ یہی ان لوگوں نے بھی ان تینوں نبیوں سے کہا کہ تم تو ہم جیسے انسان ہی ہو اور حقیقت میں اللہ نے تو کچھ بھی نازل نہیں فرمایا تم یونہی غلط ملط کہہ رہے ہو، پیغمبروں نے جواب دیا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ ہم اس کے سچے رسول ہیں۔ اگر ہم جھوٹے ہوتے تو اللہ پر جھوٹ باندھنے کی سزا ہمیں اللہ تعالیٰ دے دیتا لیکن تم دیکھو گے کہ وہ ہماری مدد کرے گا اور ہمیں عزت عطا فرمائے گا۔ اس وقت تمہیں خود روشن ہو جائے گا کہ کون شخص بہ اعتبار انجام کے اچھا رہا؟
جیسے اور جگہ ارشاد ہے «قُلْ كَفٰي باللّٰهِ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ شَهِيْدًا يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بالْبَاطِلِ وَكَفَرُوْا باللّٰهِ اُولٰىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ»[ 29- العنكبوت: 52 ] ، میرے تمہارے درمیان اللہ کی شہادت کافی ہے۔ وہ تو آسمان و زمین کے غیب جانتا ہے۔ باطل پر ایمان رکھنے والے اور اللہ سے کفر کرنے والے ہی نقصان یافتہ ہیں، سنو ہمارے ذمے تو صرف تبلیغ ہے مانو گے تمہارا بھلا ہے نہ مانو گے تو پچھتاؤ گے ہمارا کچھ نہیں بگاڑو گے کل اپنے کئے کا خمیازہ بھگتو گے۔