تفسير ابن كثير



سورۃ فاطر

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَاتٍ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهَا وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ[27] وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَلِكَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ[28]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے کچھ پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ کئی پھل نکالے، جن کے رنگ مختلف ہیں اور پہاڑوں میں سے کچھ سفید اور سرخ قطعے ہیں، جن کے رنگ مختلف ہیں اور کچھ سخت کالے سیاہ ہیں۔ [27] اور کچھ لوگوں اور جانوروں اور چوپائوں میں سے بھی ہیں جن کے رنگ اسی طرح مختلف ہیں، اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف جاننے والے ہی ڈرتے ہیں، بے شک اللہ سب پرغالب، بے حد بخشنے والا ہے ۔ [28]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا آپ نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے مختلف رنگتوں کے پھل نکالے اور پہاڑوں کے مختلف حصے ہیں سفید اور سرخ کہ ان کی بھی رنگتیں مختلف ہیں اور بہت گہرے سیاه [27] اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی بعض ایسے ہیں کہ ان کی رنگتیں مختلف ہیں، اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں واقعی اللہ تعالیٰ زبردست بڑا بخشنے واﻻ ہے [28]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے آسمان سے مینہ برسایا۔ تو ہم نے اس سے طرح طرح کے رنگوں کے میوے پیدا کئے۔ اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اور (بعض) کالے سیاہ ہیں [27] انسانوں اور جانوروں اور چارپایوں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہیں۔ خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔ بےشک خدا غالب (اور) بخشنے والا ہے [28]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 27، 28،

رب کی قدرتیں ٭٭

رب کی قدرتوں کے کمالات دیکھو کہ ایک ہی قسم کی چیزوں میں گوناگوں نمونے نظر آتے ہیں۔ ایک پانی آسمان سے اترتا ہے اور اسی سے مختلف قسم کے رنگ برنگے پھل پیدا ہو جاتے ہیں۔ سرخ سبز سفید وغیرہ اسی طرح ہر ایک کی خوشبو الگ الگ ہر ایک کا ذائقہ جداگانہ جیسے اور آیت میں فرمایا «‏‏‏‏وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ» [13-الرعد:4] ‏‏‏‏، یعنی کہیں انگور ہے، کہیں کھجور ہے، کہیں کھیتی ہے وغیرہ اسی طرح پہاڑوں کی پیدائش بھی قسم قسم کی ہے کوئی سفید ہے کوئی سرخ ہے کوئی کالا ہے۔ کسی میں راستے اور گھاٹیاں ہیں۔ کوئی لمبا ہے کوئی ناہموار ہے۔
7275

[آیت ۲۸] ‏‏‏‏ ان بیجان چیزوں کے بعد جاندار چیزوں پر نظر ڈالو۔ انسانوں کو، جانوروں کو،چوپایوں کو دیکھو ان میں بھی قدرت کی وضع وضع کی گلکاریاں پاؤ گے۔ بربرحبشی طماطم بالکل سیاہ فام ہوتے ہیں۔ مقالیہ رومی بالکل سفید رنگ،عرب درمیانہ، ہندی ان کے قریب قریب۔ چنانچہ اور آیت میں ہے «وَمِنْ اٰيٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــلْعٰلِمِيْنَ» [30-الروم:22] ‏‏‏‏ تمہاری بول چال کا اختلاف تمہاری رنگتوں کا اختلاف بھی ایک عالم کے لیے تو قدرت کی کامل نشانی ہے۔ اسی طرح چوپائے اور دیگر حیوانات کے رنگ روپ بھی علیحدہ علیحدہ ہیں۔ بلکہ ایک ہی قسم کے جانوروں میں ان کی بھی رنگتیں مختلف ہیں۔ بلکہ ایک ہی جانور کے جسم پر کئی کئی قسم کے رنگ ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ سب سے اچھا خالق اللہ کیسی کیسی کچھ برکتوں والا ہے۔ مسند بزار میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ سے سوال کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ رنگ آمیزی بھی کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ایسا رنگ رنگتا ہے جو کبھی ہلکا نہ پڑے۔ سرخ زرد اور سفید۔ [مسند بزار:2944:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث مرسل اور موقوف بھی مروی ہے۔
7276

اس کے بعد ہی فرمایا کہ جتنا کچھ خوف اللہ سے کرنا چاہیئے اتنا خوف تو اس سے صرف علماء ہی کرتے ہیں کیونکہ وہ جاننے بوجھنے والے ہوتے ہیں۔ حقیقتاً جو شخص جو قدر اللہ کی ذات سے متعلق معلومات زیادہ رکھے گا اسی قدر اس عظیم قدیر علیم اللہ کی عظمت وہیبت اس کے دل میں بڑھے گی اور اسی قدر اس کی خشیت اس کے دل میں زیادہ ہو گی۔ جو جانے گا کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے وہ قدم قدم پر اس سے ڈرتا رہے گا۔ اللہ کے ساتھ سچا علم اسے حاصل ہے جو اس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائے اس کے حلال کئے ہوئے کو حلال اور اس کے حرام بتائے کاموں کو حرام جانے اس کے فرمان پر یقین کرے اس کی نصیحت کی نگہبانی کرے اس کی ملاقات کو برحق جانے اپنے اعمال کے حساب کو سچ سمجھے۔ خشیت ایک قوت ہوتی ہے جو بندے کے اور اللہ کی نافرمانی کے درمیان حائل ہو جاتی ہے عالم کہتے ہی اسے ہیں جو در پردہ بھی اللہ سے ڈرتا رہے اور اللہ کی رضا اور پسند کو چاہے رغبت کرے اور اس کی ناراضگی کے کاموں سے نفرت رکھے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں باتوں کی زبادتی کا نام علم نہیں علم نام ہے بہ کثرت اللہ سے ڈرنے کا۔ امام مالک کا قول ہے کہ کثرت روایات کا نام علم نہیں علم تو ایک نام ہے نور ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ احد بن صالح مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں علم کثرت روایات کا نام نہیں بلکہ علم اس کا جس کی تابعداری اللہ کی طرف سے فرض ہے یعنی کتاب و سنت اور جو اصحاب اور ائمہ سے پہنچا ہو وہ روایت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ نور جو بندے کے آگے آگے ہوتا ہے وہ علم کو اور اس کے مطلب کو سمجھ لیتا ہے۔ مروی ہے کہ علماء کی تین قسمیں ہیں عالم باللہ، عالم بامر اللہ اور عالم باللہ وبامر اللہ عالم باللہ، عالم بامر اللہ نہیں اور عالم با مر اللہ عالم باللہ نہیں۔ ہاں عالم باللہ و بامر اللہ وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو اور حدود فرائض کو جانتا ہو۔ عالم باللہ وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہو لیکن حدود فرائض کو نہ جانتا ہو۔ عالم بامر اللہ وہ ہے جو حدود فرائض کو تو جانتا ہو لیکن اس کا دل اللہ کے خوف سے خالی ہو۔
7277



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.