[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور وہ کہتے ہیں یہ فیصلہ کب ہوگا، اگر تم سچے ہو؟ [28] کہہ دے فیصلے کے دن ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا نہ ان کا ایمان لانا نفع دے گا اور نہ انھیں مہلت دی جائے گی۔ [29] پس تو ان سے منہ پھیر لے اور انتظار کر، یقینا وہ (بھی) انتظار کرنے والے ہیں۔ [30] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کب ہوگا؟ اگر تم سچے ہو (تو بتلاؤ) [28] جواب دے دو کہ فیصلے والے دن ایمان ﻻنا بے ایمانوں کو کچھ کام نہ آئے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی [29] اب آپ ان کا خیال چھوڑ دیں اور منتظر رہیں۔ یہ بھی منتظر ہیں [30]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو یہ فیصلہ کب ہوگا؟ [28] کہہ دو کہ فیصلے کے دن کافروں کو ان کا ایمان لانا کچھ بھی فائدہ نہ دے گا اور نہ اُن کو مہلت دی جائے گی [29] تو اُن سے منہ پھیر لو اور انتظار کرو یہ بھی انتظار کر رہے ہیں [30]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 28، 29، 30،
نافرمان اپنی بربادی کو آپ بلاوا دیتا ہے ٭٭
کافر اعتراضاً کہا کرتے تھے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم جو ہمیں کہا کرتے ہو اور اپنے ساتھیوں کو بھی مطمئن کر دیا ہے کہ تم ہم پر فتح پاؤ گے اور ہم سے بدلے لو گے وہ وقت کب آئے گا؟ ہم تو مدتوں سے تمہیں مغلوب زیر اور بے وقعت دیکھ رہے ہیں۔ چھپ رہے ہو ڈررہے ہو اگر سچے ہو تو اپنے غلبے کا اور اپنی فتح کا وقت بتاؤ۔
اللہ فرماتا ہے کہ ” جب عذاب اللہ آ جائے گا اور جب اس کا غصہ اور غضب اتر پڑتا ہے خواہ دنیا میں ہو خواہ آخرت میں اس وقت نہ تو ایمان نفع دیتا ہے نہ مہلت ملتی ہے “۔
جیسے فرمان ہے آیت «فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللَّـهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ»[40-غافر:85-83] ، یعنی ” جب ان کے پاس اللہ کے پیغمبر دلیلیں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر نازاں ہونے لگے “، پوری دو آیتوں تک، اس سے فتح مکہ مراد نہیں۔ فتح مکہ والے دن تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کو اسلام لانا قبول فرمایا تھا اور تقریباً دوہزار آدمی اس دن مسلمان ہوئے تھے۔
6942
اگر اس آیت میں یہی فتح مکہ مراد ہوتی تو چاہیئے تھا کہ اللہ کے پیغمبر علیہ السلام ان کا اسلام قبول نہ فرماتے جیسے اس آیت میں ہے کہ اس دن کافروں کا اسلام لانا مقبول ہوگا۔ بلکہ یہاں مراد فتح سے فیصلہ ہے جیسے قرآن میں ہے آیت «فَافْتَحْ بَيْنِيْ وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَّنَجِّـنِيْ وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ»[26-الشعراء:118] ” ہمارے درمیان تو فتح کر یعنی فیصلہ کر “۔
اور جیسے اور مقام پر ہے آیت «قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـيْمُ»[34-سبأ:26] یعنی ” اللہ تعالیٰ ہمیں جمع کرے گا پھر ہمارے آپس کے فیصلے فرمائے گا “۔
اور آیت میں ہے «وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ»[14-إبراھیم:15] ” یہ فیصلہ چاہتے ہیں سرکش ضدی تباہ ہوئے اور جگہ ہے “
آیت «وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا»[2-البقرة:89] ” اس سے پہلے وہ کافروں پر فتح چاہتے تھے “ اور آیت میں فرمان باری ہے «اِنْ تَسـْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ»[8-الإنفال:19] ” اگر تم فیصلے کے آرزومند ہو تو فتح آگئی “۔
6943
پھر فرماتا ہے ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مشرکین سے بے پرواہ ہوجائیے جو رب نے اتارا ہے اسے پہنچاتے رہیے “۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ»[6-الأنعام:106] ” اپنے رب کی وحی کی اتباع کرو اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں “۔
پھر فرمایا ” تم اپنے رب کے وعدوں کو سچا مان لو اس کی باتیں اٹل ہیں اس کے فرمان سچے ہیں وہ عنقریب تجھے تیرے مخالفین پر غالب کرے گا وہ وعدہ خلافی سے پاک ہے یہ بھی منتظر ہیں،چاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آفت آئے لیکن ان کی یہ چاہتیں بے سود ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے والوں کو بھولتا نہیں نہ انہیں چھوڑتا ہے بھلا جو رب کے احکام پر جمے رہیں اللہ کی باتیں دوسروں کو پہنچائیں وہ تائید ایزدی سے کیسے محروم کر دئیے جائیں؟ یہ جو کچھ تم پر دیکھنا چاہتے ہیں وہ ان پر اترے گا بدبختی (نکبت) وادبار میں ہائے وائے واویلا میں گرفتار کئے جائیں گے۔ رب کے عذابوں کا شکار ہونگے۔ کہدو کہ اللہ ہمیں کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے “۔
اللہ کے فضل و کرم سے سورۃ السجدہ کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»