[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو کیا وہ شخص جو مومن ہو وہ اس کی طرح ہے جو نافرمان ہو؟ برابر نہیں ہوتے۔ [18] لیکن وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے تو ان کے لیے رہنے کے باغات ہیں، مہمانی اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔ [19] اور رہے وہ لوگ جنھوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانا آگ ہی ہے، جب کبھی چاہیں گے کہ اس سے نکلیں اس میں لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا آگ کا وہ عذاب چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ [20] اور یقینا ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔ [21] اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جسے اس کے رب کی آیات کے ساتھ نصیحت کی گئی، پھر اس نے ان سے منہ پھیر لیا۔ یقینا ہم ان مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔ [22] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا وه جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے [18] جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال بھی کیے ان کے لئے ہمیشگی والی جنتیں ہیں، مہمانداری ہے ان کے اعمال کے بدلے جو وه کرتے تھے [19] لیکن جن لوگوں نے حکم عدولی کی ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کے بدلے آگ کا عذاب چکھو [20] بالیقین ہم انہیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تاکہ وه لوٹ آئیں [21] اس سے بڑھ کر ﻇالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعﻆ کیا گیا پھر بھی اس نے ان سے منھ پھیر لیا، (یقین مانو) کہ ہم بھی گناه گاروں سے انتقام لینے والے ہیں [22]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے [18] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اُن کے (رہنے کے) لئے باغ ہیں یہ مہمانی اُن کاموں کی جزا ہے جو وہ کرتے تھے [19] اور جنہوں نے نافرمانی کی اُن کے رہنے کے لئے دوزخ ہے جب چاہیں گے کہ اس میں سے نکل جائیں تو اس میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور اُن سے کہا جائے گا کہ جس دوزخ کے عذاب کو تم جھوٹ سمجھتے تھے اس کے مزے چکھو [20] اور ہم اُن کو (قیامت کے) بڑے عذاب کے سوا عذاب دنیا کا بھی مزہ چکھائیں گے۔ شاید (ہماری طرف) لوٹ آئیں [21] اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون جس کو اس کے پروردگار کی آیتوں سے نصیحت کی جائے تو وہ اُن سے منہ پھیر لے۔ ہم گنہگاروں سے ضرور بدلہ لینے والے ہیں [22]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 18، 19، 20، 21، 22،
نیک و بد دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے ٭٭
اللہ تعالیٰ کے عدل و کرم کا بیان ان آیتوں میں ہے کہ اس کے نزدیک نیک کار اور بدکار برابر نہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت «اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُوْنَ»[45-الجاثية:21] ، یعنی ” کیا ان لوگوں نے جو برائیاں کر رہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ایمان اور نیک عمل والوں کی مانند کر دیں گے؟ ان کی موت زیست برابر ہے۔ یہ کیسے برے منصوبے بنا رہے ہیں “۔
اور آیت میں ہے «اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ»[38-ص:28] ، یعنی ” ایماندار نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کر دیں؟ پرہیزگاروں کو گنہگاروں کے برابر کر دیں؟ “
اور آیت «لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاىِٕزُوْنَ»[59-الحشر:20] ” دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہو سکتے “۔
یہاں بھی فرمایا کہ ” مومن اور فاسق قیامت کے دن ایک مرتبہ کے نہیں ہوں گے “۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
6925
پھر ان دونوں قسموں کا تفصیلی بیان فرمایا کہ ” جس نے اپنے دل سے کلام اللہ کی تصدیق کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا تو انہیں وہ جنتیں ملیں گی جن میں مکانات ہیں بلند بالاخانے ہیں اور رہائش آرام کے تمام سامان ہیں۔ یہ ان کی نیک اعمالی کے بدلے میں مہمانداری ہو گی۔ اور جن لوگوں نے اطاعت چھوڑی ان کی جگہ جہنم میں ہو گی جس میں سے وہ نکل نہ سکیں گے “۔
جیسے اور آیت میں ہے «كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْهَا ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ»[22-الحج:22] یعنی ” جب کبھی وہاں کے غم سے چھٹکارا چاہیں گے دوبارہ وہیں جھونک دئیے جائیں گے “۔
فضیل بن عیاض فرماتے ہیں ”واللہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہونگے آگ شعلے انہیں اوپر نیچے لے جا رہے ہونگے فرشتے انہیں سزائیں کررہے ہونگے اور جھڑک کر فرماتے ہونگے کہ اس جہنم کے عذاب کا لطف اٹھاؤ جسے تم جھوٹا جانتے تھے۔“
6926
عذاب ادنی سے مراد دنیوی مصیبتیں آفتیں دکھ درد اور بیماریاں ہیں یہ اس لیے ہوتی ہیں کہ انسان ہوشیار ہو جائے اور اللہ کی طرف جھک جائے اور بڑے عذابوں سے نجات حاصل کرے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی وہ مقرر کردہ سزائیں ہیں جو دنیا میں دی جاتی ہیں جنہیں شرعی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے۔
نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”چاند کا شق ہو جانا دھویں کا آنا اور پکڑنا اور برباد کن عذاب اور بدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے۔“[مسند احمد:128/5:صحیح] کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکے کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنا دیا تھا۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔
6927
پھر فرماتا ہے ” جو اللہ کی آیتیں سن کر اس کی وضاحت کو پاکر ان سے منہ موڑلے بلکہ ان کا انکار کر جائے اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا؟ “
قتادۃرحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اللہ کے ذکر سے اعراض نہ کرو ایسا کرنے والے بے عزت بے وقعت اور بڑے گنہگار ہیں۔“
یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ” ایسے گنہگاروں سے ہم ضرور انتقام لیں گے “۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تین کام جس نے کئے وہ مجرم ہوگیا۔ جس نے بے وجہ کوئی جھنڈا باندھا، جس نے ماں باپ کا نافرمانی کی، جس نے ظالم کے ظلم میں اس کا ساتھ دیا۔ یہ مجرم لوگ ہیں اور اللہ کا فرمان ہے کہ ” ہم مجرموں سے بازپرس کریں گے اور ان سے پورا بدلہ لیں گے “۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:28298:ضعیف]