[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اس نے تمھارے لیے خودتمھی میں سے ایک مثال بیان کی ہے، کیا تمھارے لیے ان (غلاموں) میں سے جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہیں، کوئی بھی اس رزق میں شریک ہیں جو ہم نے تمھیں دیا ہے کہ تم اس میں برابر ہو ، ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح تم اپنے آپ سے ڈرتے ہو۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کے لیے کھول کر آیات بیان کرتے ہیں جو سمجھتے ہیں۔ [28] بلکہ وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا وہ جانے بغیر اپنی خواہشوں کے پیچھے چل پڑے، پھر اسے کون راہ پر لائے جسے اللہ نے گمراہ کر دیا ہو اور ان کے لیے کوئی مدد کرنے والے نہیں ہیں۔ [29] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی، جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے؟ کہ تم اور وه اس میں برابر درجے کے ہو؟ اور تم ان کا ایسا خطره رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا، ہم عقل رکھنے والوں کے لئے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کر دیتے ہیں [28] بلکہ بات یہ ہے کہ یہ ﻇالم تو بغیر علم کے خواہش پرستی کر رہے ہیں، اسے کون راه دکھائے جسے اللہ تعالیٰ راه سے ہٹا دے، ان کا ایک بھی مددگار نہیں [29]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے کہ بھلا جن (لونڈی غلاموں) کے تم مالک ہو وہ اس (مال) میں جو ہم نے تم کو عطا فرمایا ہے تمہارے شریک ہیں، اور (کیا) تم اس میں (اُن کو اپنے) برابر (مالک سمجھتے) ہو (اور کیا) تم اُن سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو، اسی طرح عقل والوں کے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں [28] مگر جو ظالم ہیں بےسمجھے اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں تو جس کو خدا گمراہ کرے اُسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اور ان کا کوئی مددگار نہیں [29]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 28، 29،
اپنے دلوں میں جھانکو! ٭٭
مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کو شریک اللہ جانتے تھے لیکن ساتھ ہی یہ بھی مانتے تھے کہ یہ سب اللہ کے غلام اور اس کے ماتحت ہیں۔ چنانچہ وہ حج وعمرے کے موقعہ پر لبیک پکارتے ہوئے کہتے تھے کہ ( [ «لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ، تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ» ] ) یعنی ہم تیرے دربار میں حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ کہ وہ خود اور جس چیز کا وہ مالک ہے سب تیری ملکیت میں ہے۔
یعنی ہمارے شریکوں کا اور ان کی ملکیت کا تو ہی اصلی مالک ہے۔ پس یہاں انہیں ایک ایسی مثال سے سمجھایا جا رہا ہے جو خود یہ اپنے نفس ہی میں پائیں۔ اور بہت اچھی طرح غور وخوض کر سکیں۔
فرماتا ہے کہ ” کیا تم میں سے کوئی بھی اس امر پر رضا مند ہو گا کہ اس کے کل مال وغیرہ میں اس کے غلام اس کے برابر کے شریک ہوں اور ہر وقت اسے یہ دھڑ کا رہتا ہو کہ کہیں وہ تقسیم کرکے میری جائیداد اور ملکیت آدھوں آدھ بانٹ نہ لے جائیں “۔
6786
پس جس طرح تم یہ بات اپنے لیے پسند نہیں کرتے اللہ کے لیے بھی نہ چاہو جس طرح غلام آقا کی ہمسری نہیں کر سکتا اسی طرح اللہ کا کوئی بندہ اللہ کا شریک نہیں ہوسکتا۔ یہ عجب ناانصافی ہے کہ اپنے لیے جس بات سے چڑیں اور نفرت کریں اللہ کے لیے وہی بات ثابت کرنے بیٹھ جائیں۔ خود بیٹیوں سے جلتے تھے، اتنا سنتے ہی کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی ہے منہ کالے پڑجاتے تھے اور اللہ کے مقرب فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے تھے۔ اسی طرح خود اس بات کے کبھی رودار نہیں ہونے کہ اپنے غلاموں کو اپنا برابر کا شریک و سہیم سمجھیں۔ لیکن اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک سمجھ رہے ہیں کس قدر انصاف کا خون ہے؟
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ”مشرک جو لبیک پکارتے تھے اور اس میں اللہ کے لا شریک ہونے کا اقرار کرکے پھر اس کی غلامی تلے دوسروں کو مان کر انہیں اس کا شریک ٹھہراتے تھے اس پر یہ آیت اتری۔“[طبرانی کبیر:12348:ضعیف] اور اس میں بیان ہے کہ ” جب تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر کا شریک ٹھہرانے سے عار رکھتے ہو تو اللہ کے غلاموں کو اللہ کا شریک کیوں ٹھہرا رہے ہو؟ “۔
یہ صاف بات بیان فرما کر ارشاد فرماتا ہے کہ ” ہم اسی طرح تفصیل وار دلائل غافلوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں “۔ پھر فرماتا ہے اور بتلاتا ہے کہ ” مشرکین کے شرک کی کوئی سند، عقلی، نقلی کوئی دلیل نہیں صرف کرشمہ جہالت اور پیروی خواہش ہے۔ جبکہ یہ راہ راست سے ہٹ گئے تو پھر انہیں اللہ کے سوا اور کوئی راہ راست پر لا نہیں سکتا “۔
یہ گو دوسروں کا اپنا کارساز اور مددگار مانتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ دشمنان اللہ کا دوست کوئی نہیں۔ کون ہے جو اس کی مرضی کے خلاف لب ہلا سکے۔ کون ہے جو اس پر مہربانی کرے جس پر اللہ نامہربان ہو؟ جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے اور جسے وہ نہ چاہے ہو نہیں سکتا۔