[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اس کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے تورات سے ہے اور تاکہ میں تمھارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کر دوں جو تم پر حرام کی گئی تھیں اور میں تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے عظیم نشانی لے کر آیا ہوں، سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔ [50] بے شک اللہ ہی میرا رب اور تمھارا رب ہے، پس اس کی عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔ [51] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور میں توراة کی تصدیق کرنے واﻻ ہوں جو میرے سامنے ہے اور میں اس لئے آیا ہوں کہ تم پر بعض وه چیزیں حلال کروں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی ﻻیا ہوں، اس لئے تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری کرو! [50] یقین مانو! میرا اور تمہارا رب اللہ ہی ہے، تم سب اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راه ہے [51]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور مجھ سے پہلے جو تورات (نازل ہوئی) تھی اس کی تصدیق بھی کرتا ہوں اور (میں) اس لیے بھی (آیا ہوں) کہ بعض چیزیں جو تم پر حرام تھیں ان کو تمہارے لیے حلال کر دوں اور میں تو تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں تو خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو [50] کچھ شک نہیں کہ خدا ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا رستہ ہے [51]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 50، 51،
باب
پھر مسیح علیہ السلام کا اور معجزہ بیان ہو رہا ہے کہ آپ نے فرمایا بھی اور کر کے بھی دکھایا بھی، کہ جو کوئی تم میں سے آج اپنے گھر سے جو کچھ کھا کر آیا ہو میں اسے بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اطلاع سے بتا دوں گا یہی نہیں بلکہ کل کے لیے بھی اس نے جو تیاری کی ہو گی مجھے اللہ تعالیٰ کے معلوم کرانے پر معلوم ہو جاتا ہے، یہ سب میری سچائی کی دلیل ہے کہ میں جو تعلیم تمہیں دے رہا ہوں وہ برحق ہے ہاں اگر تم میں ایمان ہی نہیں تو پھر کیا؟ میں اپنے سے پہلی کتاب توراۃ کو بھی ماننے والا اس کی سچائی کا دنیا میں اعلان کرنے والا ہوں، میں تم پر بعض وہ چیزیں حلال کرنے آیا ہوں جو مجھ سے پہلے تم پر حرام کی گئی ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے توراۃ کے بعض احکام منسوخ کئے ہیں، گو اس کے خلاف بھی مفسرین کا خیال ہے، لیکن درست بات یہی ہے۔
1100
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ تورات کا کوئی حکم آپ نے منسوخ نہیں کیا البتہ بعض حلال چیزوں میں جو اختلاف تھا اور بڑھتے بڑھتے گویا ان کی حرمت پر اجماع ہو چکا تھا۔ عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی حقیقت بیان فرما دی اور ان کے حلال ہونے پر مہر کر دی، جیسے قرآن حکیم نے اور جگہ فرمایا: «وَلأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ الَّذِى تَخْتَلِفُونَ فِيهِ»[ 43-الزخرف: 63 ] میں تمہارے بعض آپس کے اختلاف میں صاف فیصلہ کر دونگا۔ پھر فرمایا کہ میرے پاس اپنی سچائی کی اللہ جل شانہ کی دلیلیں موجود ہیں تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو، جس کا خلاصہ صرف اسی قدر ہے کہ اسے پوجو جو میرا اور تمہارا پالنہار ہے سیدھی اور سچی راہ تو صرف یہی ہے۔