وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِنْ جَاءَ نَصْرٌ مِنْ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ[10] وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ[11]
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو کہتا ہے ہم اللہ پر ایمان لائے، پھر جب اسے اللہ (کے معاملہ) میں تکلیف دی جائے تو لوگوں کے ستانے کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیتا ہے اور یقینا اگر تیرے رب کی طرف سے کوئی مدد آجائے تو یقینا ضرور کہیں گے ہم تو تمھارے ساتھ تھے، اور کیا اللہ اسے زیادہ جاننے والا نہیں جو سارے جہانوں کے سینوں میں ہے۔ [10] اور یقینا اللہ ان لوگوں کو ضرور جان لے گاجو ایمان لائے اور یقینا انھیں بھی ضرور جان لے گا جو منافق ہیں۔ [11]
........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زبانی کہتے ہیں کہ ہم ایمان ﻻئے ہیں لیکن جب اللہ کی راه میں کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو لوگوں کی ایذا دہی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح بنا لیتے ہیں، ہاں اگر اللہ کی مدد آجائے تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھی ہی ہیں کیا دنیا جہان کے سینوں میں جو کچھ ہے اس سے اللہ تعالیٰ دانا نہیں ہے؟ [10] جو لوگ ایمان ﻻئے اللہ انہیں بھی ﻇاہر کرکے رہے گا اور منافقوں کو بھی ﻇاہر کرکے رہے گا [11]۔
........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر ایمان لائے جب اُن کو خدا (کے رستے) میں کوئی ایذا پہنچتی ہے تو لوگوں کی ایذا کو (یوں) سمجھتے ہیں جیسے خدا کا عذاب۔ اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ تھے۔ کیا جو اہل عالم کے سینوں میں ہے خدا اس سے واقف نہیں؟ [10] اور خدا اُن کو ضرور معلوم کرے گا جو (سچے) مومن ہیں اور منافقوں کو بھی معلوم کرکے رہے گا [11]۔
........................................
ان منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے جو زبانی ایمان کا دعویٰ کر لیتے ہیں لیکن جہاں مخالفین کی طرف سے کوئی دکھ پہنچا کہ یہ اسے اللہ کا عذاب سمجھ کر مرتد ہو جاتے ہیں۔ یہی معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے کئے ہیں۔
جیسے اور آیت میں ہے «وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّـهَ عَلَىٰ حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ» [22-الحج:11] یعنی ” بعض لوگ ایک کنارے کھڑے ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر راحت ملی تو مطمئن ہو گئے اور اگر مصیبت پہنچی تو منہ پھیر لیا۔ “
یہاں یہی بیان ہو رہا ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی غنیمت ملی، کوئی فتح ملی تو اپنا دیندار ہونا ظاہر کرنے لگتے ہیں۔
جیسے اور آیت میں ہے «الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّـهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ فَاللَّـهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَن يَجْعَلَ اللَّـهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا» [4-النساء:141] یعنی ” وہ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں اگر فتح و نصرت ہوئی تو ہانک لگانے لگتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں ہیں؟ اور اگر کافروں کی بن آئی تو ان سے اپنی ساز جتانے لگتے ہیں کہ دیکھو ہم نے تمہارا ساتھ دیا اور تمہیں بچا لیا۔ “
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بہت ممکن ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو بالکل ہی غالب کر دے پھر تو یہ اپنی اس چھپی ہوئی حرکت پر صاف نادم ہو جائیں۔
یہاں فرمایا کہ یہ کیا بات ہے؟ انہیں اتنا بھی نہیں معلوم کہ اللہ عالم الغیب ہے۔ وہ جہاں زبانی بات جانتا ہے وہاں قلبی بات بھی اسے معلوم ہے۔
اللہ تعالیٰ بھلائیاں، برائیاں پہنچا کر نیک و بد کو مومن ومنافق کو الگ الگ کر دے گا۔ نفس کے پرستار، نفع کے خواہاں یکسو ہو جائیں گے اور نفع نقصان میں ایمان کو نہ چھوڑنے والے ظاہر ہو جائیں گے۔
جیسے فرمایا «وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ» [47-محمد:31] ” ہم تمہیں آزماتے رہا کریں گے یہاں تک کہ تم میں سے مجاہدین کو اور صابرین کو ہم دنیا کے سامنے ظاہر کر دیں اور تمہاری خبریں دیکھ بھال لیں۔ “
احد کے امتحان کا ذکر کر کے فرمایا کہ اللہ مومنوں کو جس حالت پر وہ تھے، رکھنے والا نہ تھا جب تک کہ خبیث و طیب کی تمیز نہ کر لے۔