[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو وہ ڈرتا ہوا اس سے نکل پڑا، انتظار کرتا تھا، کہا اے میرے رب! مجھے ان ظالم لوگوں سے بچالے۔ [21] اور جب اس نے مدین کی طرف رخ کیا تو کہا میرا رب قریب ہے کہ مجھے سیدھے راستے پر لے جائے۔ [22] اور جب وہ مدین کے پانی پر پہنچا تو اس پر لوگوں کے ایک گروہ کو پایا جو پانی پلا رہے تھے اور ان کے ایک طرف دو عورتوں کو پایا کہ (اپنے جانور) ہٹا رہی تھیں۔ کہا تمھارا کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے کہا ہم پانی نہیں پلاتیں یہاں تک کہ چرواہے پلا کر واپس لے جائیں اور ہمارا والد بڑا بوڑھا ہے۔ [23] تواس نے ان کے لیے پانی پلا دیا، پھر پلٹ کر سائے کی طرف آگیا اور اس نے کہا اے میرے رب! بے شک میں، جو بھلائی بھی تو میری طرف نازل فرمائے، اس کا محتاج ہوں۔ [24] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پس موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے خوفزده ہوکر دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے، کہنے لگے اے پروردگار! مجھے ﻇالموں کے گروه سے بچا لے [21] اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوئے تو کہنے لگے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راه لے چلے گا [22] مدین کے پانی پر جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے اور دو عورتیں الگ کھڑی اپنے (جانوروں کو) روکتی ہوئی دکھائی دیں، پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے، وه بولیں کہ جب تک یہ چرواہے واپس نہ لوٹ جائیں ہم پانی نہیں پلاتیں اور ہمارے والد بہت بڑی عمر کے بوڑھے ہیں [23] پس آپ نے خود ان جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف ہٹ آئے اور کہنے لگے اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں [24]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] موسٰی وہاں سے ڈرتے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں (کیا ہوتا ہے) اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے۔ [21] اور جب مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے اُمید ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا رستہ بتائے [22] اور جب مدین کے پانی (کے مقام) پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جمع ہو رہے (اور اپنے چارپایوں کو) پانی پلا رہے ہیں اور ان کے ایک طرف دو عورتیں (اپنی بکریوں کو) روکے کھڑی ہیں۔ موسٰی نے (اُن سے) کہا تمہارا کیا کام ہے۔ وہ بولیں کہ جب تک چرواہے (اپنے چارپایوں کو) لے نہ جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتے اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں [23] تو موسٰی نے اُن کے لئے (بکریوں کو) پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف چلے گئے۔ اور کہنے لگے کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے [24]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 21، 22، 23، 24،
موسی علیہ السلام کا فرار ٭٭
فرعون اور فرعونیوں کے ارادے جب اس شخص کی زبانی آپ علیہ السلام کو معلوم ہو گئے تو آپ علیہ السلام وہاں سے تن تنہا چپ چاپ نکل کھڑے ہوئے۔ چونکہ اس سے پہلے کی زندگی کے ایام آپ علیہ السلام کے شہزادوں کی طرح گزرے تھے سفر بہت کڑا معلوم ہوا لیکن خوف وہراس کے ساتھ ادھر ادھر دیکھتے سیدھے چلے جا رہے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے جا رہے تھے کہ اے اللہ! ان ظالموں سے یعنی فرعون اور فرعونیوں سے نجات دے۔ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی رہبری کے واسطے ایک فرشتہ بھیجا تھا جو گھوڑے پر آپ علیہ السلام کے پاس آیا اور آپ علیہ السلام کو راستہ دکھا گیا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
تھوڑی دیر میں آپ علیہ السلام جنگلوں اور بیابانوں سے نکل کر مدین کے راستے پر پہنچ گئے تو خوش ہوئے اور فرمانے لگے مجھے ذات باری سے امید ہے کہ وہ راہ راست پر ہی لے جائے گا۔ اللہ نے آپ علیہ السلام کی امید بھی پوری کی۔ اور آخرت کی سیدھی راہ نہ صرف بتائی بلکہ اوروں کو بھی سیدھی راہ بتانے والا بنایا۔
مدین کے پاس کے کنویں پر آئے تو دیکھا کہ چرواہے پانی کھینچ کھینچ کر اپنے اپنے جانوروں کو پلا رہے ہیں۔ وہیں آپ علیہ السلام نے یہ بھی ملاحظہ فرمایا کہ دو عورتیں اپنی بکریوں کو ان جانوروں کے ساتھ پانی پینے سے روک رہی ہیں تو آپ علیہ السلام کو ان بکریوں پر اور ان عورتوں کی اس حالت پر کہ بیچاریاں پانی نکال کر پلا نہیں سکتیں اور ان چرواہوں میں سے کوئی اس کا روادار نہیں کہ اپنے کھینچے ہوئے پانی میں سے ان کی بکریوں کو بھی پلادے تو آپ علیہ السلام کو رحم آیا ان سے دریافت فرمایا کہ تم اپنے جانوروں کو اس پانی سے کیوں روک رہی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو پانی نکال نہیں سکتیں جب یہ اپنے جانوروں کو پانی پلاکرچلے جائیں تو بچا کھچا پانی ہم اپنی بکریوں کو پلادیں گی۔ ہمارے والد صاحب ہیں لیکن وہ بہت ہی بوڑھے ہیں۔
6553
بکریوں کو پانی پلایا ٭٭
آپ علیہ السلام نے خود ہی ان جانوروں کو پانی کھینچ کر پلا دیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ ”اس کنویں کے منہ کو ان چرواہوں نے ایک بڑے پتھر سے بند کر دیا تھا۔ جس چٹان کو دو آدمی مل کر سرکا سکتے تھے آپ علیہ السلام نے تن تنہا اس پتھر کو ہٹا دیا اور ایک ڈول نکالا تھا جس میں اللہ نے برکت دی اور ان دونوں لڑکیوں کی بکریاں شکم سیر ہو گئیں۔“
اب آپ علیہ السلام تھکے ہارے بھوکے پیاسے ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ گئے۔ مصر سے مدین تک پیدل بھاگے دوڑے آئے تھے۔ پیروں میں چھالے پڑ گئے تھے کھانے کو کچھ پاس نہیں تھا درختوں کے پتے اور گھاس پھونس کھاتے رہے تھے۔ پیٹ پیٹھ سے لگ رہا تھا اور گھاس کا سبز رنگ باہر سے نظر آ رہا تھا۔ آدھی کھجور سے بھی اس وقت آپ ترسے ہوئے تھے حالانکہ اس وقت کی ساری مخلوق سے زیادہ برگزیدہ اللہ کے نزدیک آپ تھے صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔
6554
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”دو رات کا سفر کر کے میں مدین گیا اور وہاں کے لوگوں سے اس درخت کا پتہ پوچھا جس کے نیچے اللہ کے کلیم علیہ السلام نے سہارا لیا تھا۔ لوگوں ایک درخت کی طرف اشارہ کیا میں نے دیکھا کہ وہ ایک سرسبز درخت ہے۔ میرا جانور بھوکا تھا اس نے اس میں منہ ڈالا پتے منہ میں لے کر بڑی دیر تک بدقت چباتا رہا لیکن آخر اس نے نکال ڈالے۔ میں نے کلیم اللہ علیہ السلام کے لیے دعا کی اور وہاں سے واپس لوٹ آیا۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:56/10:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ آپ اس درخت کو دیکھنے کے لیے گئے تھے جس سے اللہ نے آپ علیہ السلام سے باتیں کی تھیں جیسے کہ آگے آئے گا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ببول کا درخت تھا۔ الغرض اس درخت تلے بیٹھ کر آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ”اے رب میں تیرے احسانوں کا محتاج ہوں۔“ عطاء رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ”اس عورت نے بھی آپ علیہ السلام کی دعا سنی۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:57/10:]