[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] انھوں نے کہا توُ تو انھی لوگوں سے ہے جن پر زبردست جادو کیا گیا ہے۔ [185] اور تو نہیں ہے مگر ہمارے جیسا ایک بشر اور بے شک ہم تو تجھے جھوٹوں میں سے سمجھتے ہیں۔ [186] سو ہم پر آسمان سے کچھ ٹکڑے گرا دے، اگر تو سچوں میں سے ہے۔ [187] اس نے کہا میرا رب زیادہ جاننے والا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔ [188] چنانچہ انھوں نے اسے جھٹلا دیا تو انھیں سائبان کے دن والے عذاب نے آپکڑا۔ یقینا وہ بہت بڑے دن کا عذاب تھا۔ [189] بے شک اس میں یقینا ایک نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان والے نہیں تھے۔ [190] اور بلاشبہ تیرا رب، یقینا وہی سب پر غالب، نہایت رحم والا ہے۔ [191] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] انہوں نے کہا تو تو ان میں سے ہے جن پر جادو کردیا جاتا ہے [185] اور تو تو ہم ہی جیسا ایک انسان ہے اور ہم تو تجھے جھوٹ بولنے والوں میں سے ہی سمجھتے ہیں [186] اگر تو سچے لوگوں میں سے ہے تو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرادے [187] کہاکہ میرا رب خوب جاننے واﻻ ہے جو کچھ تم کر رہے ہو [188] چونکہ انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں سائبان والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا۔ وه بڑے بھاری دن کا عذاب تھا [189] یقیناً اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں کےاکثر مسلمان نہ تھے [190] اور یقیناً تیرا پروردگار البتہ وہی ہے غلبے واﻻ مہربانی واﻻ [191]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] وہ کہنے لگے کہ تم جادو زدہ ہو [185] اور تم اور کچھ نہیں ہم ہی جیسے آدمی ہو۔ اور ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو [186] اور اگر سچے ہو تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا کر گراؤ [187] شعیب نے کہا کہ جو کام تم کرتے ہو میرا پروردگار اس سے خوب واقف ہے [188] تو ان لوگوں نے ان کو جھٹلایا، پس سائبان کے عذاب نے ان کو آ پکڑا۔ بےشک وہ بڑے (سخت) دن کا عذاب تھا [189] اس میں یقیناً نشانی ہے۔ اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے [190] اور تمہارا پروردگار تو غالب (اور) مہربان ہے [191]۔ ........................................
ثمودیوں نے جو جواب اپنے نبی علیہ السلام کو دیا تھا وہی جواب ان لوگوں نے بھی اپنے رسولوں کو دیا کہ تجھ پر تو کسی نے جادو کر دیا ہے تیری عقل ٹھکانے نہیں رہی۔ تو ہم جیسا ہی انسان ہے اور ہمیں تو یقین ہے کہ تو جھوٹا آدمی ہے۔ اللہ نے تجھے نہیں بھیجا۔ اچھا تو اگر اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے۔ آسمانی عذاب ہم پر لے آ۔
جیسے قریشیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ہم تجھ پر ایمان لانے کے نہیں جب تک کہ تو عرب کے اس ریتلی زمین میں دریا نہ بہادے یہاں تک کہا کہ یا تو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گردے جیسے کہ تیرا خیال ہے یا تو اللہ تعالیٰ کو یا فرشتوں کو کھلم کھلا لے آ۔
اور آیت میں ہے کہ ” انہوں نے کہا اے اللہ اگر یہ تیرے پاس ہے اور حق ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسادے “ اسی طرح ان جاہل کافروں نے کہا کہ تو ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرادے۔
رسول اللہ علیہ السلام نے جواب دیا کہ ”اللہ کو تمہارے اعمال بخوبی معلوم ہیں جس لائق تم ہو وہ خود کر دے گا۔ اگر تم اس کے نزدیک آسمانی عذاب کے قابل ہو تو بلا تاخیر تم پر آسمانی عذاب آ جائے گا اللہ ظالم نہیں کہ بے گناہوں کو سزادے۔“
6321
بالآخر جس قسم کا عذاب یہ مانگ رہے تھے اسی قسم کا عذاب ان پر آیا۔ انہیں سخت گرمی محسوس ہوئی سات دن تک گویا زمین ابلتی رہی۔ کسی جگہ کسی سایہ میں ٹھنڈک یا راحت میسر نہ ہوئی۔ تڑپ اٹھے بے قرار ہو گئے، سات دن کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ایک سیاہ بادل ان کی طرف آ رہا ہے وہ آ کر ان کے سروں پر چھا گیا یہ سب گرمی اور حرارت سے زچ ہو گئے تھے اس کے نیچے جابیٹھے۔ جب سارے کے سارے اس کے سائے میں پہنچ گئے وہیں بادل میں سے آگ برسنے لگی ساتھ ہی زمین زور زور سے جھٹکے لینے لگی اور اس زور کی ایک آواز آئی جس سے ان کے دل پھٹ گئے جان نکل گئی اور سارے بہ یک آن تباہ ویران ہو گئے۔ اس دن کے سائبان والے سخت عذاب نے ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑا۔
سورۃ الأعراف میں تو فرمایا گیا ہے کہ ” ایک زلزلے کے ساتھ ہی یہ سب ہلاک ہو گئے “۔ سورۃ ہود میں بیان ہوا ہے کہ ” ان کی تباہی کا باعث ایک خطرناک منظر دل شکن چیخ تھی “ اور یہاں بیان ہوا کہ ” انہیں سائبان کے دن عذاب نے قابو کر لیا “، تو تینوں مقامات پر تینوں کا ایک ایک کر کے ذکر اس مقام کی عبارت کی مناسبت کی وجہ سے ہوا ہے۔
سورۃ الاعراف میں ان کی اس خباثت کا ذکر ہے کہ ” انہوں نے شعیب علیہ السلام کو دھمکایا تھا کہ اگر تم ہمارے دین میں نہ آئے تو ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو شہر بدر کر دیں گے “۔ چونکہ وہاں نبی علیہ السلام کے دل کو ہلانے کا ذکر تھا اس لیے عذاب بھی ان کے جسموں کو مع دلوں کو ہلادینے والے یعنی زلزلے اور جھٹکے کا ذکر ہوا۔
سورۃ ہود میں ذکر ہے کہ ” انہوں نے اپنے نبی کو بطور مذاق کے کہا تھا کہ آپ تو بڑے بردبار اور بھلے آدمی ہیں “۔ مطلب یہ تھا کہ بڑے بکی بکواسی اور برے آدمی ہیں تو وہاں عذاب میں چیخ اور چنگھاڑ کا بیان ہوا۔
یہاں چونکہ ان کی آرزو آسمان کے ٹکڑے کے گرنے کی تھی تو عذاب کا ذکر بھی سائبان نما ابر کے ٹکڑے سے ہوا۔ «فسبحانه ما اعظم شانه» ۔
6322
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ”سات دن تک وہ گرمی پڑی کہ الامان و الحفیظ کہیں ٹھنڈک کا نام نہیں تھا تلملا اٹھے اس کے بعد ایک ابر اٹھا اور امڈھا۔ اس کے سائے میں ایک شخص پہنچا اور وہاں راحت اور ٹھنڈک پاکر اس نے دوسروں کو بلایا جب سب جمع ہو گئے تو ابر پھٹا اور اس میں سے آگ برسی۔“ یہ بھی مروی ہے کہ ”ابر جو بطور سائبان کے تھا ان کے جمع ہوتے ہی ہٹ گیا اور سورج سے ان پر آگ برسی جس نے ان سب کا بھرتا بنا دیا۔“
محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اہل مدین پر تینوں عذاب آئے شہروں میں زلزلہ آیا جس سے خائف ہو کر حدود شہر سے باہر آ گئے۔ باہر جمع ہوتے ہی گھبراہٹ پریشانی اور بے کلی شروع ہو گئی تو وہاں سے بھگدڑ مچی لیکن شہر میں جانے سے ڈرے وہیں دیکھا کہ ایک ابر کا ٹکڑا ایک جگہ ہے ایک اس کے نیچے گیا اور اس کی ٹھنڈک محسوس کر کے سب کو آواز دی کہ یہاں آ جاؤ یہاں جیسی ٹھنڈک اور تسکین تو کبھی دیکھی ہی نہیں یہ سنتے سب اس کے نیچے جمع ہو گئے کہ اچانک ایک چیخ کی آواز آئی جس سے کلیجے پھٹ گئے سب کے سب مرگئے۔“
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ”سخت گرج کڑک اور گرمی شروع ہوئی جس سے سانس گھٹنے لگے اور بے چینی حد کو پہنچ گئی۔ گھبراکر شہر چھوڑ کر میدان میں جمع ہو گئے۔ یہاں بادل آیا جس کے نیچے ٹھنڈک اور راحت حاصل کرنے کے لیے سب جمع ہوئے۔ وہیں آگ برسی جل بھن گئے۔“
یہ تھا سائبان والے بڑے بھاری دن کا عذاب جس نے ان کا نام و نشان مٹا دیا۔ یقیناً یہ واقعہ سراسر عبرت اور قدرت الٰہی کی ایک زبردست نشانی ہے۔ ان میں اکثر بے ایمان تھے اللہ تعالیٰ اپنے بد بندوں سے انتقام لینے میں غالب ہے۔ کوئی اسے مغلوب نہیں کر سکتا وہ اپنے نیک بندوں پر مہربان ہے انہیں بچالیا کرتا ہے۔