تفسير ابن كثير



سورۃ الشعراء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ[165] وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ[166] قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَا لُوطُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِينَ[167] قَالَ إِنِّي لِعَمَلِكُمْ مِنَ الْقَالِينَ[168] رَبِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ[169] فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ[170] إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ[171] ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ[172] وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ[173] إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ[174] وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ[175]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیا سارے جہانوں میں سے تم مردوں کے پاس آتے ہو۔ [165] اور انھیں چھوڑ دیتے ہو جو تمھارے رب نے تمھارے لیے تمھاری بیویاں پیدا کی ہیں، بلکہ تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔ [166] انھوں نے کہا اے لوط! بے شک اگر تو باز نہ آیا تو یقینا تو ضرور نکالے ہوئے لوگوں سے ہو جائے گا۔ [167] اس نے کہا بے شک میں تمھارے کام سے سخت دشمنی رکھنے والوں سے ہوں۔ [168] اے میرے رب! مجھے اور میرے گھر والوں کو اس سے نجات دے جو یہ کرتے ہیں۔ [169] تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی۔ [170] سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں سے تھی۔ [171] پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کر دیا۔ [172] اور ہم نے ان پر بارش برسائی، زبردست بارش۔ پس ان لوگوں کی بارش بری تھی جنھیں ڈرایا گیا تھا۔ [173] بے شک اس میں یقینا ایک نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان والے نہیں تھے۔ [174] اور بلاشبہ تیرا رب، یقینا وہی سب پر غالب، نہایت رحم والا ہے۔ [175]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا تم جہان والوں میں سے مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو [165] اور تمہاری جن عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا جوڑا بنایا ہے ان کو چھوڑ دیتے ہو، بلکہ تم ہو ہی حد سے گزر جانے والے [166] انہوں نے جواب دیاکہ اے لوط! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً نکال دیا جائے گا [167] آپ نے فرمایا، میں تمہارے کام سے سخت ناخوش ہوں [168] میرے پروردگار! مجھے اور میرے گھرانے کو اس (وبال) سے بچالے جو یہ کرتے ہیں [169] پس ہم نے اسے اور اس کے متعلقین کو سب کو بچالیا [170] بجز ایک بڑھیا کے کہ وه پیچھے ره جانے والوں میں ہوگئی [171] پھر ہم نے باقی اور سب کو ہلاک کر دیا [172] اور ہم نے ان پر ایک خاص قسم کا مینہ برسایا، پس بہت ہی برا مینہ تھا جو ڈرائے گئے ہوئے لوگوں پر برسا [173] یہ ماجرا بھی سراسر عبرت ہے۔ ان میں سے بھی اکثر مسلمان نہ تھے [174] بیشک تیرا پروردگار وہی ہے غلبے واﻻ مہربانی واﻻ [175]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کیا تم اہل عالم میں سے لڑکوں پر مائل ہوتے ہو [165] اور تمہارے پروردگار نے جو تمہارے لئے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو [166] وہ کہنے لگے کہ لوط اگر تم باز نہ آؤ گے تو شہر بدر کردیئے جاؤ گے [167] لوط نے کہا کہ میں تمہارے کام کا سخت دشمن ہوں [168] اے میرے پروردگار مجھ کو اور میرے گھر والوں کو ان کے کاموں (کے وبال) سے نجات دے [169] سو ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو سب کو نجات دی [170] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی [171] پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کردیا [172] اور ان پر مینھہ برسایا۔ سو جو مینھہ ان (لوگوں) پر (برسا) جو ڈرائے گئے برا تھا [173] بےشک اس میں نشانی ہے۔ اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے [174] اور تمہارا پروردگار تو غالب (اور) مہربان ہے۔ [175]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 165، 166، 167، 168، 169، 170، 171، 172، 173، 174، 175،

ہم جنسی پرستی کا شکار ٭٭

لوط نبی علیہ السلام نے اپنی قوم کو ان کی خاص بدکاری سے روکا کہ تم مردوں کے پاس شہوت سے نہ آؤ۔ ہاں اپنی حلال بیویوں سے اپنی خواہش پوری کر جنہیں اللہ نے تمہارے لیے جوڑا بنا دیا ہے۔ رب کی مقرر حدوں کا ادب واحترام کرو۔

اس کا جواب ان کے پاس یہی تھا کہ اے لوط علیہ السلام اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے جلا وطن کر دیں گے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان پاکبازوں لوگوں کو تو الگ کر دو۔ یہ دیکھ کر آپ علیہ السلام نے ان سے بیزاری اور دست برداری کا اعلان کر دیا، اور فرمایا کہ میں تمہارے اس برے کام سے ناراض ہوں میں اسے پسند نہیں کرتا میں اللہ کے سامنے اپنی برأت کا اظہار کرتا ہوں۔‏‏‏‏
6300

پھر اللہ سے ان کی لیے بد دعا کی اور اپنی اور اپنے گھرانے کی نجات طلب کی۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو نجات دی مگر آپ علیہ السلام کی بیوی نے اپنی قوم کا ساتھ دیا اور انہی کے ساتھ تباہ ہوئی جیسے کہ سورۃ الاعراف، سورۃ ہود اور سورۃ الحجر میں بالتفصیل بیان گزر چکا ہے۔

آپ علیہ السلام اپنے والوں کو لے کر اللہ کے فرمان کے مطابق اس بستی سے چل کھڑے ہوئے حکم تھا کہ آپ علیہ السلام کے نکلتے ہی ان پر عذاب آئے گا اس وقت پلٹ کر ان کی طرف دیکھنا بھی نہیں۔ پھر ان سب پر عذاب برسا اور سب برباد کر دئیے گئے۔ ان پر آسمان سے سنگ باری ہوئی۔ اور انکا انجام بد ہوا۔ یہ بھی عبرتناک واقعہ ہے ان میں سے بھی اکثر بے ایمان تھے۔ رب کے غلبے میں اس کے رحم میں کوئی شک نہیں۔
6301



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.