تفسير ابن كثير



سورۃ الشعراء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ[78] وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ[79] وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ[80] وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ[81] وَالَّذِي أَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ[82]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] وہ جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے۔ [78] اور وہی جو مجھے کھلاتا ہے اور مجھے پلاتا ہے۔ [79] اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ [80] اور وہ جو مجھے موت دے گا، پھر مجھے زندہ کرے گا۔ [81] اور وہ جس سے میں طمع رکھتا ہوں کہ وہ جزا کے دن مجھے میری خطا بخش دے گا۔ [82]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہبری فرماتا ہے [78] وہی ہے جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے [79] اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو مجھے شفا عطا فرماتا ہے [80] اور وہی مجھے مار ڈالے گا پھر زنده کردے گا [81] اور جس سے امید بندھی ہوئی ہے کہ وه روز جزا میں میرے گناہوں کو بخش دے گا [82]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی مجھے رستہ دکھاتا ہے [78] اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے [79] اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے [80] اور جو مجھے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا [81] اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہ بخشے گا [82]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 78، 79، 80، 81، 82،

خلیل اللہ کی تعریف ٭٭

حضرت خلیل اللہ علیہ السلام اپنے رب کی صفتیں بیان فرماتے ہیں کہ میں تو ان اوصاف والے رب کا ہی عابد ہوں۔ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہیں کرونگا۔ پہلا وصف یہ کہ وہ میرا خالق ہے اسی نے اندازہ مقرر کیا ہے اور وہی مخلوقات کی اس کی طرف رہبری کرتا ہے۔ دوسرا وصف یہ کہ وہ ہادی حقیقی ہے جسے چاہتا ہے اپنی راہ مستقیم پر چلاتا ہے جسے چاہتا ہے اسے غلط راہ پر لگا دیتا ہے۔ تیسر وصف میرے رب کا یہ ہے کہ وہ رازق ہے آسمان و زمین کے تمام اسباب اسی نے مہیا کئے ہیں۔ بادلوں کا اٹھانا پھیلانا ان سے بارش کا برسانا اس سے زمین کو زندہ کرنا پھر پیداوار اگانا اسی کا کام ہے۔ وہی میٹھا اور پیاس بجھانے والا پانی ہمیں دیتا ہے اور اپنی مخلوق کو بھی غرض کھلانے پلانے والا ہی ہے۔ ساتھ ہی بیمار تندرستی بھی اسی کے ہاتھ ہے۔‏‏‏‏

لیکن خلیل اللہ علیہ السلام کا کمال ادب دیکھئیے کہ بیماری کی نسبت تو اپنی طرف کی اور شفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ گو بیماری بھی اس قضاء و قدر ہے اور اسی کی بنائی ہوئی چیز ہے۔

یہی لطافت سورۃ فاتحہ کی دعا میں بھی ہے کہ انعام وہدایت کی اسناد تو اللہ عالم کی طرف کی ہے اور غضب کے فاعل کو حزف کر دیا ہے اور ضلالت بندے کی طرف منسوب کر دی ہے۔

سورۃ الجن میں جنات کا قول بھی ملاحظہ ہوجہاں انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ زمین والی مخلوق کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے ساتھ ان کے رب نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے؟ یہاں بھی بھلائی کی نسبت رب کی طرف کی گئی اور برائی کے ارادے میں نسبت ظاہر نہیں کی گئی۔

اسی طرح کی آیت ہے کہ ” جب میں بیمار پڑتا ہوں تو میری شفاء پر بجز اس اللہ کے اور کوئی قادر نہیں “۔ دوا میں تاثیر پیدا کرنا بھی اسی کے بس کی چیز ہے۔

موت و حیات پر قادر بھی وہی ہے۔ ابتداء اسی کے ساتھ ہے اسی نے پہلی پیدائش کی ہے۔ وہی دوبارہ لوٹائے گا۔ دنیا اور آخرت میں گناہوں کی بخشش پر بھی وہی قادر ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، غفور ورحیم وہی ہے۔
6205



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.