[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور ان پر ابراہیم کی خبر پڑھ۔ [69] جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟ [70] انھوں نے کہا ہم عظیم بتوں کی عبادت کرتے ہیں، پس انھی کے مجاور بنے رہتے ہیں۔ [71] کہا کیا وہ تمھیں سنتے ہیں، جب تم پکارتے ہو؟ [72] یا تمھیں فائدہ دیتے، یا نقصان پہنچاتے ہیں؟ [73] انھوں نے کہا بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا کہ وہ ایسے ہی کرتے تھے۔ [74] کہا تو کیا تم نے دیکھا کہ جن کو تم پوجتے رہے۔ [75] تم اور تمھارے پہلے باپ دادا۔ [76] سو بلاشبہ وہ میرے دشمن ہیں، سوائے رب العالمین کے۔ [77] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بھی سنادو [69] جبکہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ [70] انہوں نے جواب دیا کہ عبادت کرتے ہیں بتوں کی، ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں [71] آپ نے فرمایا کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا وه سنتے بھی ہیں؟ [72] یا تمہیں نفع نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں [73] انہوں نے کہا یہ (ہم کچھ نہیں جانتے) ہم تو اپنے باپ دادوں کو اسی طرح کرتے پایا [74] آپ نے فرمایا کچھ خبر بھی ہے جنہیں تم پوج رہے ہو [75] تم اور تمہارے اگلے باپ دادا، وه سب میرے دشمن ہیں [76] بجز سچے اللہ تعالیٰ کے جو تمام جہان کا پالنہار ہے [77]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ان کو ابراہیم کا حال پڑھ کر سنا دو [69] جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم کس چیز کو پوجتے ہو [70] وہ کہنے لگے کہ ہم بتوں کو پوجتے ہیں اور ان کی پوجا پر قائم ہیں [71] ابراہیم نے کہا کہ جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری آواز کو سنتے ہیں؟ [72] یا تمہیں کچھ فائدے دے سکتے یا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ [73] انہوں نے کہا (نہیں) بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے [74] ابراہیم نے کہا کیا تم نے دیکھا کہ جن کو تم پوجتے رہے ہو [75] تم بھی اور تمہارے اگلے باپ دادا بھی [76] وہ میرے دشمن ہیں۔ مگر خدائے رب العالمین (میرا دوست ہے) [77]۔ ........................................
تمام موحدوں کے باپ اللہ کے بندے اور رسول اور خلیل ابراہیم علیہ افضل التحیۃ والتسلیم کا واقعہ بیان ہو رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو یہ واقعہ سنا دیں، تاکہ وہ اخلاص توکل اور اللہ واحد کی عبادت اور شرک اور مشرکین سے بیزاری میں آپ علیہ السلام کی اقتداء کریں۔ آپ علیہ السلام اول دن سے اللہ کی توحید پر قائم تھے اور آخر دن تک اسی توحید پر جمے رہے “۔ اپنی قوم سے اور اپنے باپ سے فرمایا کہ ”یہ بت پرستی کیا کر رہے ہو“؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو پرانے وقت سے ان بتوں کی مجاوری اور عبادت کرتے چلے آتے ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام نے ان کی اس غلطی کو ان پر وضح کر کے ان کی غلط روش بے نقاب کرنے کے لیے ایک بات اور بھی بیان فرمائی کہ تم جو ان سے دعائیں کرتے ہو اور دور نزدیک سے انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری پکار سنتے ہیں؟ یا جس نفع کے حاصل کرنے کے لیے تم انہیں بلاتے ہو وہ نفع تمہیں وہ پہنچاسکتے ہیں؟ یا اگر تم ان کی عبادت چھوڑ دو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ اس کا جواب جو قوم کی جانب سے ملا وہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے معبود ان کاموں میں سے کسی کام کو نہیں کر سکتے۔ انہوں نے صاف کہا کہ ہم تو اپنے بڑوں کی وجہ سے بت پرستی پر جمے ہوئے ہیں۔
6195
اس کے جواب میں خلیل اللہ علیہ السلام نے ان سے اور ان کے معبودان باطلہ سے اپنی برأت اور بیزاری کا اعلان کر دیا۔ صاف فرما دیا کہ ”تم اور تمہارے معبود سے میں بیزار ہوں، جن کی تم اور تمہارے باپ دادا پرستش کرتے رہے۔ ان سب سے میں بیزار ہوں وہ سب میرے دشمن ہیں میں صرف سچے رب العلمین کا پرستار ہوں۔ میں موحد مخلص ہوں۔ جاؤ تم سے اور تمہارے معبودوں سے جو ہو سکے کر لو۔“
نوح نبی علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا ”تم اور تمہارے سارے معبود مل کر اگر میرا کچھ بگاڑ سکتے ہوں تو کمی نہ کرو۔“
ھود علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا ”میں تم سے اور تمہارے اللہ کے سوا باقی معبودوں سے بیزار ہوں تم سب اگر مجھے نقصان پہنچا سکتے ہو تو جاؤ پہنچالو۔ میرا بھروسہ اپنے رب کی ذات پر ہے تمام جاندار اس کے ماتحت ہیں وہ سیدھی راہ والا ہے۔“
اسی طرح خلیل الرحمن علیہ صلوات الرحمن نے فرمایا کہ ”میں تمہارے معبودوں سے بالکل نہیں ڈرتا۔ ڈر تو تمہیں میرے رب سے رکھنا چاہیئے۔ جو سچا ہے۔“ آپ علیہ السلام نے اعلان کر دیا تھا کہ ”جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ مجھ میں تم میں عداوت ہے۔ میں اے باپ تجھ سے اور تیری قوم سے اور تیرے معبودوں سے بری ہوں۔ صرف اپنے رب سے میری آرزو ہے کہ وہ مجھے راہ راست دکھلائے اسی کو یعنی «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کو انہوں نے کلمہ بنا لیا۔