[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو جادوگر ایک مقرر دن کے طے شدہ وقت کے لیے جمع کر لیے گئے۔ [38] اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم جمع ہونے والے ہو؟ [39] شاید ہم ان جادوگروں کے پیروکار بن جائیں، اگر وہی غالب رہیں۔ [40] پھر جب جادوگر آگئے تو انھوں نے فرعون سے کہا کیا واقعی ہمارے لیے ضرور کچھ صلہ ہوگا، اگر ہم ہی غالب ہوئے؟ [41] کہا ہاں اور یقینا تم اس وقت ضرور مقرب لوگوں سے ہو گے۔ [42] موسیٰ نے ان سے کہا پھینکو جو کچھ تم پھینکنے والے ہو۔ [43] تو انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں اور انھوں نے کہا فرعون کی عزت کی قسم! بے شک ہم، یقینا ہم ہی غالب آنے والے ہیں۔ [44] پھر موسیٰ نے اپنی لاٹھی پھینکی تو اچانک وہ ان چیزوں کو نگل رہی تھی جو وہ جھوٹ بنا رہے تھے۔ [45] تو جادوگر نیچے گرا دیے گئے، اس حال میں کہ سجدہ کرنے والے تھے۔ [46] انھوں نے کہا ہم تمام جہانوں کے رب پر ایمان لے آئے۔ [47] موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔ [48] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پھر ایک مقرر دن کے وعدے پر تمام جادوگر جمع کیے گئے [38] اور عام لوگوں سے بھی کہہ دیا گیا کہ تم بھی مجمع میں حاضر ہوجاؤ گے؟ [39] تاکہ اگر جادوگر غالب آجائیں تو ہم ان ہی کی پیروی کریں [40] جادوگر آکر فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ہم جیت گئے تو ہمیں کچھ انعام بھی ملے گا؟ [41] فرعون نے کہا ہاں! (بڑی خوشی سے) بلکہ ایسی صورت میں تم میرے خاص درباری بن جاؤ گے [42] (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں سے فرمایا جو کچھ تمہیں ڈالنا ہے ڈال دو [43] انہوں نے اپنی رسیاں اور ﻻٹھیاں ڈال دیں اور کہنے لگے عزت فرعون کی قسم! ہم یقیناً غالب ہی رہیں گے [44] اب (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی ﻻٹھی میدان میں ڈال دی جس نے اسی وقت ان کے جھوٹ موٹ کے کرتب کو نگلنا شروع کردیا [45] یہ دیکھتے ہی دیکھتے جادوگر بے اختیار سجدے میں گر گئے [46] اورانہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم تو اللہ رب العالمین پر ایمان ﻻئے [47] یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون کے رب پر [48]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] تو جادوگر ایک مقررہ دن کی میعاد پر جمع ہوگئے [38] اور لوگوں سے کہہ دیا گیا کہ تم (سب) کو اکھٹے ہو کر جانا چاہیئے [39] تاکہ اگر جادوگر غالب رہیں تو ہم ان کے پیرو ہوجائیں [40] جب جادوگر آگئے تو فرعون سے کہنے لگے اگر ہم غالب رہے تو ہمیں صلہ بھی عطا ہوگا؟ [41] فرعون نے کہا ہاں اور تم مقربوں میں بھی داخل کرلئے جاؤ گے [42] موسیٰ نے ان سے کہا کہ جو چیز ڈالنی چاہتے ہو، ڈالو [43] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں اور کہنے لگے کہ فرعون کے اقبال کی قسم ہم ضرور غالب رہیں گے [44] پھر موسیٰ نے اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ ان چیزوں کو جو جادوگروں نے بنائی تھیں یکایک نگلنے لگی [45] تب جادوگر سجدے میں گر پڑے [46] (اور) کہنے لگے کہ ہم تمام جہان کے مالک پر ایمان لے آئے [47] جو موسیٰ اور ہارون کا مالک ہے [48]۔ ........................................
مناظرہ زبانی ہو چکا۔ اب مناظرہ عملاً ہو رہا ہے اس مناظرہ کا ذکر سورۃ الاعراف، سورۃ طہٰ اور اس سورت میں ہے۔ قبطیوں کا ارادہ اللہ کے نور کے بجھانے کا تھا اور اللہ کا ارادہ اس کی نورانیت کے پھیلانے کا تھا۔ پس اللہ کا ارادہ غالب رہا۔ ایمان و کفر کا مقابلہ جب کبھی ہوا ایمان کفر پر غالب رہا۔ اللہ تعالیٰ حق کو غالب کرتا ہے باطل کا سر پھٹ جاتا ہے اور لوگوں کے باطل ارادے ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔ حق آ جاتا ہے باطل بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔
یہاں بھی یہ ہوا ہر ایک شہر میں سپاہی بھیجے گئے۔ چاروں طرف سے بڑے بڑے نامی گرامی جادوگر جمع کئے گئے جو اپنے فن میں کامل اور استاد زمانہ تھے کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد بارہ یا پندرہ یا سترہ یا انیس یا کچھ اوپر تیس یا اسی ہزار کی یا اس سے کم و بیش تھی۔ صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ان تمام کے استاد اور سردار چار شخص تھے۔ سابور عاذور حطحط اور مصفی۔ چونکہ سارے ملک میں شور مچ چکا تھا چاروں طرف سے لوگوں کے غول کے غول وقت مقررہ سے پہلے مصر میں جمع ہو گئے۔
چونکہ یہ کلیہ قاعدہ ہے کہ رعیت اپنے بادشاہ کے مذہب پر ہوتی ہے۔ سب کی زبان سے یہی نکلتا تھا کہ جادوگروں کے غلبہ کے بعد ہم تو ان کی راہ لگ جائیں گے۔ یہ کسی زبان سے نہ نکلا کہ جس طرف حق ہو گا ہم اسی طرف ہو جائیں گے اب موقعہ پر فرعون مع اپنے جاہ چشم کے نکال تمام امراء و رؤسا ساتھ تھے لشکر فوج پلٹن ہمراہ تھی جادوگروں کو اپنے دربار میں اپنے سامنے بلوایا۔ جادوگروں نے بادشاہ سے عہد لینا چاہا اس لیے کہا کہ جب ہم غالب آ جائیں تو بادشاہ ہمیں انعامات سے محروم نہیں رکھیں گے؟ فرعون نے جواب دیا واہ یہ کیسے ہوسکتا ہے نہ صرف انعام بلکہ میں تو تمہیں اپنے خاص رؤسا میں شامل کرونگا اور تم ہمیشہ میرے پاس اور میرے ساتھ ہی رہا کرو گے۔ تم میرے مقرب بن جاؤ گے میری تمام تر توجہ تمہاری ہی طرف ہو گی۔
وہ خوشی خوشی میدان کی طرف چل دیئے۔ وہاں جا کر موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے۔ بولو تم پہلے اپنی استادی دکھاتے ہو؟ یا ہم دکھائیں؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں تم ہی پہلے اپنی بھڑاس نکال لو تاکہ تمہارے دل میں کوئی ارمان نہ رہ جائے یہ جواب پاتے ہی انہوں نے اپنی چھڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں اور کہنے لگے فرعون کی عزت سے ہمارا غلبہ رہے گا۔
6160
جیسے جاہل عوام جب کسی کام کو کرتے ہیں تو کہتے ہیں یہ فلاں کے ثواب سے۔ سورۃ الاعراف میں ہے «قَالَ أَلْقُوا فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ»[7-الأعراف:116] ” جادوگروں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا۔ انہیں ہیبت میں ڈال دیا اور بڑا بھاری جادو ظاہر کیا “۔ سورۃ طہٰ میں ہے کہ ” ان کی لاٹھیاں اور رسیاں ان کے جادو سے ہلتی جلتی معلوم ہونے لگیں “۔
اب موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ میں جو لکڑی تھی اسے میدان میں ڈال دیا جس نے سارے میدان میں ان کی جو کچھ نظربندیوں کی چیزیں تھیں، سب کو ہضم کر لیا۔ پس حق ظاہر ہو گیا اور باطل دب گیا اور ان کا کیا کرایا سب غارت ہو گیا۔ یہ کوئی ہلکی سی بات اور تھوڑی سی دلیل نہ تھی جادوگر تو اسے دیکھتے ہی مسلمان ہوگئے کہ ایک شخص اپنے استاد فن کے مقابلے میں آتا ہے اس کا حال جادوگروں کا سا نہیں۔ وہ کوئی بات نہیں کرتا یقیناً ہمارا جادو صرف نگاہوں کا فریب ہے اور اس کے پاس اللہ کا دیا ہوا معجزہ ہے وہ تو اسی وقت وہیں کے وہیں اللہ کے سامنے سجدے میں گرگئے۔ اور اسی مجمع میں سب کے سامنے اپنے ایمان لانے کا اعلان کیا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لا چکے۔ پھر اپنا قول اور واضح کرنے کے لیے یہ بھی ساتھ ہی کہہ دیا کہ رب العالمین سے ہماری مراد وہ رب ہے جسے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام اپنا رب کہتے ہیں۔
اتنا بڑا معجزہ اس قدر انقلاب فرعون نے اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن ملعون کی قسمت میں ایمان نہ تھا۔ پھر بھی آنکھیں نہ کھلی۔ اور دشمن جاں ہو گیا۔ اور اپنی طاقت سے حق کو کچلنے لگا۔ اور کہنے لگا کہ ہاں میں جان گیا موسیٰ تم سب کے استاد تھے اسے تم نے پہلے سے بھیج دیا پھر تم بظاہر مقابلہ کرنے کے لیے آئے اور باطنی مشورے کے مطابق میدان ہار گئے اور اس کی بات مان گئے پس تمہارا یہ مکر کھل گیا۔