[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اورجس دن آسمان بادل کے ساتھ پھٹ جائے گا اور فرشتے اتارے جائیں گے، لگاتار اتارا جانا۔ [25] اس دن حقیقی بادشاہی رحمان کی ہوگی اور کافروں پر وہ بہت مشکل دن ہوگا۔ [26] اور جس دن ظالم اپنے دونوں ہاتھ دانتوں سے کاٹے گا، کہے گا اے کاش! میں رسول کے ساتھ کچھ راستہ اختیار کرتا۔ [27] ہائے میری بربادی! کاش کہ میں فلاں کو دلی دوست نہ بناتا۔ [28] بے شک اس نے تو مجھے نصیحت سے گمراہ کر دیا، اس کے بعد کہ میرے پاس آئی اور شیطان ہمیشہ انسان کو چھوڑ جانے والا ہے۔ [29] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائے گا اور فرشتے لگاتار اتارے جائیں گے [25] اس دن صحیح طور پر ملک صرف رحمٰن کا ہی ہوگا اور یہ دن کافروں پر بڑا بھاری ہوگا [26] اور اس دن ﻇالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی راه اختیار کی ہوتی [27] ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا [28] اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراه کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے واﻻ ہے [29]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جس دن آسمان ابر کے ساتھ پھٹ جائے گا اور فرشتے نازل کئے جائیں گے [25] اس دن سچی بادشاہی خدا ہی کی ہوگی۔ اور وہ دن کافروں پر (سخت) مشکل ہوگا [26] اور جس دن (ناعاقبت اندیش) ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا (اور کہے گا) کہ اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رشتہ اختیار کیا ہوتا [27] ہائے شامت کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا [28] اس نے مجھ کو (کتاب) نصیحت کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا۔ اور شیطان انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے [29]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 25، 26، 27، 28، 29،
فیصلوں کا دن ٭٭
قیامت کے دن جو ہولناک امور ہوں گے، ان میں سے ایک آسمان کا پھٹ جانا اور نورانی ابر کا نمودار ہونا بھی شامل ہے جس کی روشنی سے آنکھیں چکا چوند ہو جائیں گی، پھر فرشتے اتریں گے اور میدان محشر میں تمام انسانوں کو گھیر لیں گے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں میں فیصلے کے لیے تشریف لائے گا۔ جیسے فرمان ہے: «هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّـهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ»[2-البقرة:210] یعنی کہ ” انہیں اس بات کا انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بادلوں میں آئیں۔ “
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کو سب انسانوں اور کل جنات کو ایک میدان میں جمع کرے گا۔ تمام جانور، چوپائے، درندے، پرندے اور کل مخلوق وہاں ہو گی پھر آسمان اول پھٹے گا اور اس کے فرشتے اتریں گے جو تمام مخلوق کو دو طرف سے گھیرلیں گے اور وہ گنتی میں بہت زیادہ ہوں گے۔ پھر دوسرا آسمان پھٹے گا اس کے فرشتے بھی آئیں گے جو زمین کی اور آسمان اول کی تمام مخلوق کی گنتی سے بھی زیادہ ہوں گے۔ پھر تیسرا آسمان شق ہو گا اس کے فرشتے بھی، دونوں آسمانوں کے فرشتے مل کر زمین کی مخلوق سے بھی زیادہ ہوں گے، سب کو گھیر کر کھڑے ہو جائیں گے۔ پھر اسی طرح چوتھا پانچواں پھر چھٹا پھر ساتواں۔ پھر ہمارا رب عز و جل ابر کے سائے میں تشریف لائے گا، اس کے اردگرد بزرگ تر پاک فرشتے ہوں گے جو ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کی کل مخلوق سے بھی زیادہ ہوں گے، ان پر سینگوں جیسے نشان ہونگے، وہ اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے اللہ کی تسبیح و تہلیل و تقدس بیان کریں گے، ان کے تلوے سے لے کر ٹخنے تک کا فاصلہ پانچ سو سال کا راستہ ہو گا اور ٹخنے سے گھٹنے تک کا بھی اتنا ہی۔ اور گھٹنے سے ناف تک کا بھی اتنا فاصلہ ہو گا۔ اور ناف سے گردن کا بھی اتنا ہی فاصلہ ہو گا اور گردن سے کان کی لو تک بھی اتنا ہی فاصلہ ہو گا اور اس کے اوپر سے سر تک کا بھی اتنا ہی فاصلہ ہو گا۔ [ضعیف]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ قیامت کا نام «یَوْمَ التَّلاَقِ» اسی لیے ہے کہ اس میں زمین و آسمان والے ملیں گے، انہیں دیکھ کر پہلے تو محشر والے سمجھ لیں گے کہ ہمارا اللہ آیا۔
6040
لیکن فرشتے سمجھا دیں گے کہ وہ آنے والا ہے، ابھی تک نازل نہیں ہوا۔ پھر جب ساتوں آسمانوں کے فرشتے آ جائیں گے، اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر تشریف لائے گا جسے آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے جن کے ٹخنے سے گھٹنے تک ستر سال کا راستہ ہے اور ران اور مونڈھے کے درمیان بھی ستر سال کا راستہ ہے۔ ہر فرشتہ دوسرے سے علیحدہ اور جداگانہ ہے۔ ہر ایک کی ٹھوڑی سینے سے لگی ہوئی ہے اور زبان پر «سبُْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ» کا وظیفہ ہے۔ ان کے سروں پر ایک پھیلی ہوئی چیز ہے جیسے سرخ شفق، اس کے اوپر عرش ہو گا۔ اس میں راوی علی بن زید بن جدعان ہیں جو ضعیف ہیں اور بھی اس حدیث میں بہت سی خامیاں ہیں۔ صور کی مشہور حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
6041
اور آیت میں ہے کہ ” اس دن ہو پڑنے والی ہو پڑے گی اور آسمان پھٹ کر روئی کی طرح ہو جائے گا۔ اور اس کے کناروں پر فرشتے ہوں گے اور اس دن تیرے رب کا عرش آٹھ فرشتے لیے ہوں گے۔ “[69-الحاقة:15-17]
شہر بن حوشب رحمہ اللہ کہتے ہیں: ان میں سے چار کی تسبیح تو یہ ہو گی «سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَ بِحَمْدِکَ لَکّ الْحَمْدُ عَلیٰ حِلْمِکَ بَعْدَ عِلْمِکَ» اے اللہ! تو پاک ہے، تو قابل ستائش و تعریف ہے۔ باوجود علم کے پھر بھی بردباری برتنا تیرا وصف ہے جس پر ہم تیری تعریف بیان کرتے ہیں۔ اور چار کی تسبیح یہ ہو گی «سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَ بِحَمْدِکَ لَکَ الْحَمْدُ عَلیٰ عَفْوِکَ بَعْدَ قُدْرَتِکَ» اے اللہ! تو پاک ہے اور اپنی تعریفوں کے ساتھ ہے تیرے ہی لیے سب تعریف ہے کہ تو باوجود قدرت کے معاف فرماتا رہتا ہے۔
ابوبکر بن عبداللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عرش کو اترتا دیکھ کر اہل محشر کی آنکھیں پھٹ جائیں گی، جسم کانپ اٹھیں گے، دل لرز جائیں گے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت اللہ عز و جل مخلوق کی طرف اترے گا تو درمیان میں ستر ہزار پردے ہوں گے۔ بعض نور کے، بعض ظلمت کے۔ اس ظلمت میں سے ایک ایسی آواز نکلے گی جس سے دل پاش پاش ہو جائیں گے۔ شاید ان کی یہ روایت انہی دو تھیلوں میں سے لی ہوئی ہو گی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
6042
اس دن صرف اللہ ہی کی بادشاہت ہو گی۔ جیسے فرمان ہے «لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّـهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ»[40-غافر:16] ” آج ملک کس کے لیے ہے؟ صرف اللہ غالب و قہار کے لیے۔ “
صحیح حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور زمینوں کو اپنے دوسرے ہاتھ میں لے لے گا، پھر فرمائے گا: میں مالک ہوں، میں فیصلہ کرنے والا ہوں۔ زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟ تکبر کرنے والے کہاں ہیں؟ [صحیح بخاری:7413]
وہ دن کفار پر بڑا بھاری پڑا ہو گا۔ اسی کا بیان اور جگہ بھی ہے کہ کافروں پر وہ دن گراں گزرے گا۔ [74-المدثر:9-10]
ہاں مومنوں کو اس دن مطلق گھبراہٹ یا پریشانی نہ ہو گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پچاس ہزار سال کا دن تو بہت ہی دراز ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مومنوں پر تو وہ ایک وقت کی فرض نماز سے بھی ہلکا اور آسان ہو گا۔ [مسند احمد:75/3:ضعیف]
پیغمبر علیہ السلام کے طریقے اور آپ کے لائے ہوئے کھلے حق سے ہٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ کے سوا دوسری راہوں پہ چلنے والے اس دن بڑے ہی نادم ہونگے اور حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے ہاتھ چبائیں گے۔
گو اس کا نزول عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں ہو یا کسی اور کے بارے میں لیکن حکم کے اعتبار سے یہ ہر ایسے ظالم کو شامل ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت «يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّـهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا»[33-الأحزاب:66-67] ” پس ہر ظالم قیامت کے دن پچھتائے گا، اپنے ہاتھوں کو چبائے گا اور آہ و زاری کر کے کہے گا: کاش! کہ میں نے نبی کی راہ اپنائی ہوتی۔ کاش! کہ میں نے فلاں کی عقیدت مندی نہ کی ہوتی۔ جس نے مجھے راہ حق سے گمراہ کر دیا۔ “
امیہ بن خلف کا اور اس کے بھائی ابی بن خلف کا بھی یہی حال ہو گا اور ان کے سوا اور بھی ایسے لوگوں کا یہ حال ہو گا۔ کہے گا کہ اس نے مجھے ذکر یعنی قرآن سے بیگانہ کر دیا حالانکہ وہ مجھ تک پہنچ چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: شیطان انسان کو رسوا کرنے والا ہے، وہ اسے ناحق کی طرف بلاتا ہے اور حق سے ہٹا دیتا ہے۔