وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا[20]
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجے مگر بلاشبہ وہ یقینا کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تمھارے بعض کو بعض کے لیے ایک آزمائش بنایا ہے۔ کیا تم صبر کرو گے؟ اور تیرا رب ہمیشہ سے سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ [20]
........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تم میں سے ہر ایک کو دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنا دیا۔ کیا تم صبر کرو گے؟ تیرا رب سب کچھ دیکھنے واﻻ ہے [20]۔
........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم نے تم سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے ہیں سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔ اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے۔ کیا تم صبر کرو گے۔ اور تمہارا پروردگار تو دیکھنے والا ہے [20]۔
........................................
کافر اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ نبی کو کھانے پینے اور تجارت بیوپار سے کیا مطلب؟ اس کا جواب ہو رہا ہے کہ اگلے سب پیغمبر بھی انسانی ضرورتیں بھی رکھتے تھے، کھانا پینا ان کے ساتھ بھی لگا ہوا تھا۔ بیوپار، تجارت اور کسب معاش وہ بھی کیا کرتے تھے۔ یہ چیزیں نبوت کے خلاف نہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ عزوجل اپنی عنایت خاص سے انہیں وہ پاکیزہ اوصاف، نیک خصائل، عمدہ اقوال، مختار افعال، ظاہر دلیلیں، اعلیٰ معجزے دیتا ہے کہ ہر عقل سلیم والا، ہر دانا بینا مجبور ہو جاتا ہے کہ ان کی نبوت کو تسلیم کر لے اور ان کی سچائی کو مان لے۔
اسی آیت جیسی اور آیت «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ» [12-يوسف:109] الخ، ہے۔ ” یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے نبی آئے، سب شہروں میں رہنے والے انسان ہی تھے۔ “
اور آیت میں ہے «وَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ» [21-الأنبياء:8] الخ، ” ہم نے انہیں ایسے جثے نہیں بنائے تھے کہ کھانے پینے سے وہ آزاد ہوں۔ “ ہم تو تم میں سے ایک ایک کی آزمائش ایک ایک سے کر لیا کرتے ہیں تاکہ فرمانبردار اور نافرمان ظاہر ہو جائیں۔ صابر اور غیر صابر معلوم ہو جائیں۔ تیرا رب دانا و بینا ہے، خوب جانتا ہے کہ مستحق نبوت کون ہے؟
جیسے فرمایا «اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ سَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعَذَابٌ شَدِيْدٌ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ» [6-الأنعام:124] ” منصب رسالت کی اہلیت کس میں ہے؟ اسے اللہ ہی بخوبی جانتا ہے۔ “ اسی کو اس کا بھی علم ہے کہ مستحق ہدایت کون ہیں؟ اور کون نہیں؟ چونکہ اللہ کا ارادہ بندوں کا امتحان لینے کا ہے، اس لیے نبیوں کو عموماً معمولی حالت میں رکھتا ہے ورنہ اگر انہیں بکثرت دنیا دیتا تو ان کے مال کے لالچ میں بہت سے ان کے ساتھ ہو جاتے تو پھر سچے جھوٹے مل جاتے۔
صحیح مسلم میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں خود تجھے اور تیری وجہ سے اور لوگوں کو آزمانے والا ہوں۔ [صحیح مسلم:2865]
مسند میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اگر میں چاہتا تو میرے ساتھ سونے چاندی کے پہاڑ چلتے رہتے۔ [مسند ابویعلیٰ:4920:صحیح]
اور صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور بادشاہ بننے میں اور نبی اور بندہ بننے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے بندہ اور نبی بننا پسند فرمایا۔ [مسند احمد:231/2:صحیح] «فصلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی الہ واصحابہ اجمعین»