تفسير ابن كثير



سورۃ الفرقان

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قُلْ أَذَلِكَ خَيْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاءً وَمَصِيرًا[15] لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ خَالِدِينَ كَانَ عَلَى رَبِّكَ وَعْدًا مَسْئُولًا[16]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہہ دے کیا یہ بہتر ہے یا ہمیشگی کی جنت، جس کا متقی لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے، وہ ان کے لیے بدلہ اور ٹھکانا ہو گی۔ [15] ان کے لیے اس میں جو چاہیں گے ہوگا، ہمیشہ رہنے والے، یہ تیرے رب کے ذمے ہوچکا، ایسا وعدہ جو قابل طلب ہے۔ [16]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] آپ کہہ دیجیئے کہ کیا یہ بہتر ہے یا وه ہمیشگی والی جنت جس کا وعده پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے، جو ان کا بدلہ ہے اور ان کے لوٹنے کی اصلی جگہ ہے [15] وه جو چاہیں گے ان کے لئے وہاں موجود ہوگا، ہمیشہ رہنے والے۔ یہ تو آپ کے رب کے ذمے وعده ہے جو قابل طلب ہے [16]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] پوچھو کہ یہ بہتر ہے یا بہشت جاودانی جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ ہے۔ یہ ان (کے عملوں) کا بدلہ اور رہنے کا ٹھکانہ ہوگا [15] وہاں جو چاہیں گے ان کے لئے میسر ہوگا ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہ وعدہ خدا کو (پورا کرنا) لازم ہے اور اس لائق ہے کہ مانگ لیا جائے [16]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 15، 16،

ابدی لذتیں اور مسرتیں ٭٭

اوپر بیان فرمایا ان بدکاروں کا جو ذلت و خواری کے ساتھ اوندھے منہ جہنم کی طرف گھسیٹے جائیں گے اور سر کے بل وہاں پھینک دئیے جائیں گے۔ بندھے بندھائے ہوں گے اور تنگ و تاریک جگہ ہوں گے، نہ چھوٹ سکیں، نہ حرکت کر سکیں، نہ بھاگ سکیں، نہ نکل سکیں۔

پھر فرماتا ہے: بتلاؤ یہ اچھے ہیں یا وہ؟ جو دنیا میں گناہوں سے بچتے رہے، اللہ کا ڈر دل میں رکھتے رہے اور آج اس کے بدلے اپنے اصلی ٹھکانے پہنچ گئے یعنی جنت میں جہاں من مانی نعمتیں، ابدی لذتیں، دائمی مسرتیں ان کے لیے موجود ہیں۔ عمدہ کھانے، اچھے بچھونے، بہترین سواریاں، پرتکلف لباس، بہتر سے بہتر مکانات، بنی سنوری پاکیزہ حوریں، راحت افزا منظر، ان کے لیے مہیا ہیں، جہاں تک کسی کی نگاہیں تو کہاں خیالات بھی نہیں پہنچ سکتے۔ نہ ان راحتوں کے بیانات کسی کان میں پہنچے۔ پھر ان کے کم ہو جانے، ختم ہو جانے کا بھی کوئی خطرہ نہیں اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں نہ، وہ نعمتیں کم ہوں۔ لازوال، بہترین زندگی، ابدی رحمت، دوامی کی دولت انہیں مل گئی اور ان کی ہو گئی۔

یہ رب کا احسان و انعام ہے جو ان پر ہوا اور جس کے یہ مستحق تھے۔ رب کا وعدہ ہے جو اس نے اپنے ذمے کر لیا ہے جو ہو کر رہنے والا ہے جس کا عدم ایفا ناممکن ہے، جس کا غلط ہونا محال ہے۔ اس سے اس کے وعدے کے پورا کرنے کا سوال کرو، اس سے جنت طلب کرو، اسے اس کا وعدہ یاد دلاؤ۔ یہ بھی اس کا فضل ہے کہ اس کے فرشتے اس سے دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ رب العالمین مومن بندوں سے جو تیرا وعدہ ہے، اسے پورا کر اور انہیں جنت عدن میں لے جا۔ قیامت کے دن مومن کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! تیرے وعدے کو سامنے رکھ کر ہم عمل کرتے رہے، آج تو اپنا وعدہ پورا کر۔

یہاں پہلے دوزخیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد جنتیوں کا ذکر ہوا۔ سورۃ الصافات میں جنتیوں کا ذکر کر کے پھر سوال کے بعد دوزخیوں کا ذکر ہوا کہ ” کیا یہی بہتر ہے یا زقوم کا درخت؟ جسے ہم نے ظالموں کے لیے فتنہ بنا رکھا ہے جو جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے جس کے پھل ایسے بدنما ہیں جیسے سانپ کے پھن۔ دوزخی اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھرنا پڑے گا۔ پھر کھولتا ہوا گرم پانی پیپ وغیرہ سے ملا جلا پینے کو دیا جائے گا۔ پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ انہوں نے اپنے پاپ دادوں کو گمراہ پایا اور بےتحاشا ان کے پیچھے لپکنا شروع کر دیا۔ “ [37-الصافات:62-70] ‏‏‏‏
6022



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.