[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] ان عظیم گھروں میں جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ وہ بلند کیے جائیں اور ان میں اس کا نام یاد کیا جائے، اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ان میں صبح و شام۔ [36] وہ بڑی شان والے مرد جنھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ کوئی تجارت غافل کرتی ہے اور نہ کوئی خرید و فروخت، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔ [37] تاکہ اللہ انھیںاس کا بہترین بدلہ دے جو انھوں نے کیا اور انھیں اپنے فضل سے زیادہ دے اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔ [38] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ان گھروں میں جن کے بلند کرنے، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں [36] ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی [37] اس ارادے سے کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلے دے بلکہ اپنے فضل سے اور کچھ زیادتی عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بےشمار روزیاں دیتا ہے [38]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (وہ قندیل) ان گھروں میں (ہے) جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ بلند کئے جائیں اور وہاں خدا کے نام کا ذکر کیا جائے (اور) ان میں صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہیں [36] (یعنی ایسے) لوگ جن کو خدا کے ذکر اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے سے نہ سوداگری غافل کرتی ہے نہ خرید وفروخت۔ وہ اس دن سے جب دل (خوف اور گھبراہٹ کے سبب) الٹ جائیں گے اور آنکھیں (اوپر کو چڑھ جائیں گی) ڈرتے ہیں [37] تاکہ خدا ان کو ان کے عملوں کا بہت اچھا بدلہ دے اور اپنے فضل سے زیادہ بھی عطا کرے۔ اور جس کو چاہتا ہے خدا بےشمار رزق دیتا ہے [38]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 36، 37، 38،
مومن کے دل سے مماثلت ٭٭
مومن کے دل کی اور اس میں جو ہدایت وعلم ہے اس کی مثال اوپر والی آیت میں اس روشن چراغ سے دی تھی جو شیشہ کی ہانڈی میں ہو اور صاف زیتون کے روشن تیل سے جل رہا ہے۔ اس لیئے یہاں اس کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کی توحید بیان کی جاتی ہے۔ جن کی نگہبانی اور پاک صاف رکھنے کا اور بے ہودہ اقوال و افعال سے بچانے کا حکم اللہ نے دیا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ ” «أَنْ تُرْفَعَ» کے معنی اس میں بیہودگی نہ کرنے کے ہیں۔“ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”مراد اس سے یہی مسجدیں ہیں جن کی تعمیر، آبادی، ادب اور پاکیزگی کا حکم اللہ نے دیا ہے۔“ کعب رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے کہ زمین پر مسجدیں میرا گھر ہیں، جو بھی باوضو میرے گھر پر میری ملاقات کے لیے آئے گا، میں اس کی عزت کرونگا ہر اس شخص پر جس سے ملنے کے لیے کوئی اس کے گھر آئے حق ہے کہ وہ اس کی تکریم کرے [ تفسیر ابن ابی حاتم ]
مسجدوں کے بنانے اور ان کا ادب احترام کرنے انہیں خوشبودار اور پاک صاف رکھنے کے بارے میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جنہیں بحمد اللہ میں نے ایک مستقل کتاب میں لکھا ہے یہاں بھی ان میں سے تھوڑی بہت وارد کرتا ہوں، اللہ مدد کرے اسی پر بھروسہ اور توکل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اسی جیسا گھر جنت میں بناتا ہے ۔ [صحیح بخاری:450]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نام اللہ کے ذکر کئے جانے کے لیے جو شخص مسجد بنائے اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے ۔ [سنن ابن ماجه:735،قال الشيخ الألباني:صحیح]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور پاک صاف اور خوشبودار رکھی جائیں ۔ [سنن ابوداود:455،قال الشيخ الألباني:صحیح]
5937
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ”لوگوں کے لیے مسجدیں بناؤ جہاں انہیں جگہ ملے لیکن سرخ یا زردرنگ سے بچو تاکہ لوگ فتنے میں نہ پڑیں۔“[صحیح بخاری تعلیقا:کتاب الصلواۃ:باب:بنیان المسجد]
ایک ضعیف سند سے مروی ہے کہ جب تک کسی قوم نے اپنی مسجدوں کو ٹیپ ٹاپ والا، نقش و نگار اور رنگ روغن والا نہ بنایا ان کے اعلام برے نہیں ہوئے ۔ [سنن ابن ماجه:741، قال الشيخ الألباني:ضعیف] اس کی سند ضعیف ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے مسجدوں کو بلند و بالا اور پختہ بنانے کا حکم نہیں دیا گیا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی حدیث فرماتے ہیں کہ ”تم یقیناً مسجدوں کو مزین، منقش اور رنگ دار کرو گے جیسے کہ یہودونصاری نے کیا۔“[سنن ابوداود:448، قال الشيخ الألباني:صحیح]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں آپس میں ایک دوسرے پر فخر و غرور نہ کرنے لگیں ۔ [سنن ابوداود:449،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ایک شخص مسجد میں اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا آیا اور کہنے لگا ہے کوئی جو مجھے میرے سرخ رنگ کے اونٹ کا پتہ دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا کی کہ اللہ کرے تجھے نہ ملے۔ مسجدیں تو جس مطلب کے لیے بنائی گئی ہیں، اسی کام کے لیے ہیں ۔ [صحیح مسلم:569]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں میں خرید و فروخت، تجارت کرنے سے اور وہاں اشعار کے گائے جانے سے منع فرما دیا ہے ۔ [سنن ابوداود:1079،قال الشيخ الألباني:صحیح]
5938
فرمان ہے کہ جسے مسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ تیری تجارت میں نفع نہ دے اور جب کسی کو گمشدہ جانور مسجد میں تلاش کرتا ہوا پاؤ تو کہو کہ اللہ کرے نہ ملے ۔ [سنن ترمذي:1321،قال الشيخ الألباني:صحیح]
بہت سی باتیں مسجد کے لائق نہیں، مسجد کو راستہ نہ بنایا جائے، نہ تیر پھیلائے جائیں نہ کچا گوشت لایا جائے، نہ یہاں حد ماری جائے، نہ یہاں باتیں اور قصے کہے جائیں نہ اسے بازار بنایا جائے ۔ [سنن ابن ماجه:748،قال الشيخ الألباني:ضعیف و صحت منه الخصلة الاولى]
5939
فرمان ہے کہ ہماری مسجدوں سے اپنے بچوں کو، دیوانوں کو، خرید و فروخت کو، لڑائی جھگڑے کو اور بلند آواز سے بولنے کو اور حد جاری کرنے کو اور تلواروں کے ننگی کرنے کو روکو۔ ان کے دروازوں پر وضو وغیرہ کی جگہ بناؤ اور جمعہ کے دن انہیں خوشبو سے مہکا دو ۔ [سنن ابن ماجه:750،قال الشيخ الألباني:ضعیف] اس کی سند ضعیف ہے۔
بعض علماء نے بلا ضرورت کے مسجدوں کو گزرگاہ بنانا مکروہ کہا ہے۔ ایک اثر میں ہے کہ جو شخص بغیر نماز پڑھے مسجد سے گزر جائے، فرشتے اس پر تعجب کرتے ہیں۔ ہتھیاروں اور تیروں سے جو منع فرمایا یہ اس لیے کہ مسلمان وہاں بکثرت جمع ہوتے ہیں ایسان نہ ہو کہ کسی کے لگ جائے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تیر یا نیزہ لے کر گزرے تو اسے چاہیئے کہ اس کا پھل اپنے ہاتھ میں رکھے تاکہ کسی کو ایذاء نہ پہنچے ۔ [صحیح بخاری:452]
کچا گوشت لانا اس لیے منع ہے کہ خوف ہے اس میں سے خون نہ ٹپکے جیسے کہ حائضہ عورت کو بھی اسی وجہ سے مسجد میں آنے کی ممانعت کر دی گئی ہے۔ مسجد میں حد لگانا اور قصاص لینا اس لیے منع کیا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شخص مسجد کو نجس نہ کر دے۔ بازار بنانا اس لیے منع ہے کہ وہ خرید و فروخت کی جگہ ہے اور مسجد میں یہ دونوں باتیں منع ہیں۔ کیونکہ مسجدیں ذکر اللہ اور نماز کی جگہ ہیں۔ جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے فرمایا تھا، جس نے مسجد کے گوشے میں پیشاب کر دیا تھا کہ مسجدیں اس لیے نہیں بنیں، بلکہ وہ اللہ کے ذکر اور نماز کی جگہ ہے ۔ پھر اس کے پیشاب پر ایک بڑا ڈول پانی کا بہانے کا حکم دیا ۔ [صحیح بخاری:6025]
دوسری حدیث میں ہے اپنے بچوں کو اپنی مسجدوں سے روکو [سنن ابن ماجه:750،قال الشيخ الألباني:ضعیف] اس لیے کہ کھیل کود ہی ان کا کام ہے اور مسجد میں یہ مناسب نہیں۔
چنانچہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہا جب کسی بچے کو مسجد میں کھیلتا ہوا دیکھ لیتے تو اسے کوڑے سے پیٹتے اور عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں کسی کو نہ رہنے دیتے۔ دیوانوں کو بھی مسجدوں سے روکا گیا کیونکہ وہ بےعقل ہوتے ہیں اور لوگوں کے مذاق کا ذریعہ ہوتے ہیں اور مسجد اس تماشے کے لائق نہیں۔ اور یہ بھی ہے کہ ان کی نجاست وغیرہ کا خوف ہے۔ بیع و شرا سے روکا گیا کیونکہ وہ ذکر اللہ سے مانع ہے۔ جھگڑوں کی مصالحتیٰ مجلس منعقد کرنے سے اس لیے منع کر دیا گیا کہ اس میں آوازیں بلند ہوتی ہیں ایسے الفاظ بھی نکل جاتے ہیں جو آداب مسجد کے خلاف ہیں۔
5940
اکثر علماء کا قول ہے کہ فیصلے مسجد میں نہ کئے جائیں اسی لیے اس جملے کے بعد بلند آواز سے منع فرمایا۔ سائب بن یزید کندی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ”میں مسجد میں کھڑا تھا کہ اچانک مجھ پر کسی نے کنکر پھینکا، میں نے دیکھا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے مجھ سے فرمانے لگے، جاؤ ان دونوں شخصوں کو میرے پاس لاؤ، جب میں آپ کے پاس انہیں لایا تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا۔ تم کون ہو؟ یا پوچھا کہ ”تم کہاں کے ہو“؟ انہوں نے کہ ”ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔“ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”اگر تم یہاں رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سخت سزا دیتا تم مسجد نبوی میں اونچی اونچی آوازوں سے بول رہے ہو“؟ [صحیح بخاری:470]
ایک شخص کی اونچی آواز سن کر جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا۔ ”جانتا بھی ہے تو کہاں ہے؟۔“[ نسائی ]
اور مسجد کے دروازوں پر وضو کرنے والے اور پاکیزگی حاصل کرنے کی جگہ بنانے کا حکم دیا۔ مسجد نبوی کے قریب ہی کنویں تھے جن میں سے پانی کھینچ کر پیتے تھے اور وضو اور پاکیزگی حاصل کرتے تھے۔ اور جمعہ کے دن اسے خوشبودار کرنے کا حکم ہوا ہے کیونکہ اس دن لوگ بکثر جمع ہوتے ہیں۔ چنانچہ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ہر جمعہ کے دن مسجد نبوی کو مہکایا کرتے تھے۔
بخاری و مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جماعت کی نماز انسان کی اکیلی نماز پر جو گھر میں یا دوکان پر پڑھی جائے، پچیس درجے زیادہ ثواب رکھتی ہے، یہ اس لیے کہ جب وہ اچھی طرح سے وضو کرکے صرف نماز کے ارادے سے چلتا ہے تو ہر ایک قدم کے اٹھانے پر اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور جب نماز پڑھ چکتا ہے پھر جت تک وہ اپنی نماز کی جگہ رہے، فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرما اور اس پر رحم کر۔ اور جب تک جماعت کے انتظار میں رہے نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے ۔ [صحیح بخاری:477]
دارقطنی میں ہے مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے سوا نہیں ہوتی ۔ [دارقطنی:420/1:موقوف]
5941
سنن میں ہے اندھیروں میں مسجد جانے والوں کو خوشخبری سنا دو کہ انہیں قیامت کے دن پورا پورا نور ملے گا ۔ [سنن ابوداود:561،قال الشيخ الألباني:صحیح]
یہ بھی مستحب ہے کہ مسجد میں جانے والا پہلے اپنا داہنا قدم رکھے اور یہ دعا پڑھے۔ بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں آتے یہ کہتے «أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ، وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ، وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ، مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» ۔ فرمان ہے کہ جب کوئی شخص یہ پڑھتا ہے شیطان کہتا ہے میرے شر سے یہ تمام دن محفوظ ہو گیا ۔ [سنن ابوداود:466،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ تم میں سے کوئی مسجد میں جانا چاہے یہ دعا پڑھے «اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ»”اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے“ اور جب مسجد سے باہر جائے تو یہ کہے «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ»”اے اللہ! میں تیرے فضل کا طالب ہوں ۔ [صحیح مسلم:713]
ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے پھر دعا «اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ» پڑھے اور جب مسجد سے نکلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیج کر دعا «اللَّهُمَّ اعْصِمْنِي مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» پڑھے ۔ [سنن ابن ماجه:773،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ترمذی وغیرہ میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آتے تو درود پڑھ کر دعا «اللَّهُمَّ، اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي، وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ» پڑھتے اور جب مسجد سے نکلتے تو درود کے بعد دعا «اللَّهُمَّ، اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي، وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ» پڑھتے ۔ [سنن ترمذي:314،قال الشيخ الألباني:صحیح] اس حدیث کی سند متصل نہیں۔
الغرض یہ اور ان جیسی اور بہت سی حدیثیں اس آیت کے متعلق ہیں جو مسجد اور احکام مسجد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ اور آیت میں ہے «يَابَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ»[7-الأعراف:31] ” تم ہر مسجد میں اپنا منہ سیدھا رکھو “۔ «وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ»[7-الأعراف:29] ” اور خلوص کے ساتھ صرف اللہ کو پکارو “۔
ایک اور آیت میں ہے کہ «وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا»[72-الجن:18] ” مسجدیں اللہ ہی کی ہیں۔ اس کا نام ان میں لیا جائے “ یعنی کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے۔
” صبح شام وہاں اس اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں “ «آصَالُ» جمع ہے «أَصِيلٍ» کی، شام کے وقت کو «أَصِيلٍ» کہتے ہیں۔
5942
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”جہاں کہیں قرآن میں «تَسْبِيحٍ» کا لفظ ہے وہاں مراد نماز ہے۔“ پس یہاں مراد صبح کی اور عصر کی نماز ہے۔ پہلے پہلے یہی دو نمازیں فرض ہوئی تھیں پس وہی یاد دلائی گئیں۔
ایک قرأت میں «يُسَبِّحُ» ہے اور اس قرأت پر «وَالْآصَالِ» پر پورا وقف ہے اور «رِجَالٌ» سے پھر دوسری بات شروع ہے گویا کہ وہ مفسر ہے فاعل محذوف کے لیے۔ تو گویا کہا گیا کہ وہاں تسبیح کون کرتے ہیں؟ تو جواب دیا گیا کہ ایسے لوگ اور «يُسَبِّحُ» کی قرأت پر «رِجَالٌ» فاعل ہے تو وقف فاعل کے بیان کے بعد چاہیئے۔ کہتے ہیں «رِجَالٌ» اشارہ ہے ان کے بہترین مقاصد اور ان کی پاک نیتوں اور اعلی کاموں کی طرف یہ اللہ کے گھروں کے آباد رکھنے والے ہیں۔ اس کی عبادت کی جگہیں ان سے زینت پاتی ہیں، توحید اور شکر گزری کرنے والے ہیں۔
جیسے فرمان ہے آیت «مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ»[33-الأحزاب:23] ، یعنی ” مومنوں میں ایسے بھی مرد ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کئے تھے انہیں پورے کر دکھایا “۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت کی اپنے گھر کی نماز اس کی اپنے صحن کی نماز سے افضل ہے، اور اس کی اپنی اس کوٹھری کی نماز اس کے اپنے گھر کی نماز سے افضل ہے ۔ [سنن ابوداود:570،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند احمد میں ہے عورتوں کی بہترین مسجد گھر کے اندر کا کونا ہے ۔ [مسند احمد:297/6:حسن بالشواهد]
مسند احمد میں ہے کہ ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرنا بہت پسند کرتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مجھے بھی معلوم ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تیری اپنے گھر کی نماز صحن کی نماز سے اور حجرے کی نماز گھر کی نماز سے اور گھر کی کوٹھڑی کی نماز حجرے کی نماز سے افضل ہے۔ اور محلے کی مسجد سے افضل گھر کی نماز ہے اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد کی نماز سے افضل ہے ۔ یہ سن کر مائی صاحبہ نے اپنے گھر کے بالکل انتہائی حصے میں ایک جگہ کو بطور مسجد کے مقرر کر لیا اور آخری گھڑی تک وہیں نماز پڑھتی رہیں ۔ رضی اللہ عنہا۔ [مسند احمد:371/6:حسن]
ہاں البتہ عورتوں کے لیے بھی مسجد میں مردوں کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ضرور ہے۔ بشرطیکہ مردوں پر اپنی زینت ظاہر نہ ہونے دیں اور نہ خوشبو لگا کر نکلیں۔
صحیح حدیث میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو ۔ [صحیح بخاری:900]
ابوداؤد میں ہے کہ عورتوں کے لیے ان کے گھر افضل ہیں ۔ [سنن ابوداود:567،قال الشيخ الألباني:صحیح] اور حدیث میں ہے کہ وہ خوشبو استعمال کرکے نہ نکلیں ۔ [سنن ابوداود:565،قال الشيخ الألباني:صحیح بالشواهد]
5943
صحیح مسلم شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد آنا چاہے تو خوشبو کو ہاتھ بھی نہ لگائے ۔ [صحیح مسلم:443]
بخاری و مسلم میں ہے کہ ”مسلمان عورتیں صبح کی نماز میں آتی تھیں پھر وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی چلی جاتی تھیں اور بوجہ رات کے اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔“[صحیح بخاری:372]
ام المؤمنین سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”عورتوں نے یہ جو نئی نئی باتیں نکالیں ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کو پالیتے تو انہیں مسجدوں میں آنے سے روک دیتے جیسے کہ بنو اسرائیل کی عورتیں روک دی گئیں۔“[صحیح بخاری:869]
5944
ایسے لوگ جنہیں خرید و فروخت یاد الٰہی سے نہیں روکتی۔ جیسے ارشاد ہے «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ»[63-المنافقون:9] ” ایمان والو، مال و اولاد تمہیں ذکر اللہ سے غافل نہ کر دے “۔ سورۃ الجمعہ میں ہے کہ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ»[62-الجمعة:9] ” جمعہ کی اذان سن کر ذکر اللہ کی طرف چل پڑو اور تجارت چھوڑ دو “۔
مطلب یہ ہے کہ ان نیک لوگوں کو دنیا اور متاع آخرت اور ذکر اللہ سے غافل نہ کر سکتی، انہیں آخرت اور آخرت کی نعمتوں پر یقین کامل ہے اور انہیں ہمیشہ رہنے والا سمجھتے ہیں اور یہاں کی چیزوں کو فانی جانتے ہیں اس لیے انہیں چھوڑ کر اس طرف توجہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو، اس کی محبت کو، اس کے احکام کو مقدم کرتے ہیں۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ تجارت پیشہ حضرات کو اذان سن کر اپنے کام کاج چھوڑ کر مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا ”یہ لوگ انہی میں سے ہیں۔“ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے۔
5945
ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”میں سوداگری یا تجارت کروں اگرچہ اس میں مجھے ہر دن تین سو اشرفیاں ملتی ہوں لیکن میں نمازوں کے وقت یہ سب چھوڑ کر ضرور چلا جاؤں گا۔“ میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تجارت کرنا حرام ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم میں یہ وصف ہونا چاہیئے، جو اس آیت میں بیان ہو رہا ہے۔
سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ نماز کے لیے جا رہے تھے، دیکھا کہ مدینہ شریف کے سوداگر اپنی اپنی دوکانوں پر کپڑے ڈھک کر نماز کے لیے گئے ہوئے ہیں اور کوئی بھی دوکان پر موجود نہیں تو یہی آیت پڑھی اور فرمایا ”یہ انہی میں سے ہیں جن کی تعریف جناب باری نے فرمائی ہے۔“
اس بات کا سلف میں یہاں تک خیال تھا کہ ترازو اٹھائے تول رہے ہیں اور اذان کان میں پڑی تو ترازو رکھ دی اور مسجد کی طرف چل دئے فرض نماز باجماعت مسجد میں ادا کرنے کا انہیں عشق تھا۔ وہ نماز کے اوقات کی ارکان اور آداب کی حفاظت کے ساتھ نمازوں کے پابند تھے۔ یہ اس لیے کہ دلوں میں خوف الٰہی تھا قیامت کا آنا برحق جانتے تھے اس دن کی خوفناکی سے واقف تھے کہ سخت تر گھبراہٹ اور کامل پریشانی اور بے حد الجھن کی وجہ سے آنکھیں پتھرا جائیں گی، دل اڑ جائیں گے، کلیجے دہل جائیں گے۔
جیسے فرمان ہے کہ «وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا»[76-الإنسان:8-12] ” میرے نیک بندے میری محبت کی بنا پر مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہیں محض اللہ کی رضاجوئی کے لیے کھلا رہے ہیں، ہمارا مقصد تم سے شکریہ طلب کرنے یا بدلہ لینے کا نہیں۔ ہمیں تو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر ہے جب کہ لوگ مارے رنج و غم کے منہ بسورے ہوئے اور تیوریاں بدلے ہوئے ہوں گے۔ پس اللہ ہی انہیں اس دن کی مصیبتوں سے نجات دے گا اور انہیں تروتازگی بشاشت، ہنسی خوشی اور راحت و آرام سے ملا دے گا۔ اور ان کے صبر کے بدلے انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے گا “۔
5946
یہاں بھی فرماتا ہے کہ ” ان کی نیکیاں مقبول ہیں، برائیاں معاف ہیں ان کے ایک ایک عمل کا بہترین بدلہ مع زیادتی اور اللہ کے فضل کے انہیں ضرور ملنا ہے “۔ جیسے فرمان ہے «إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا»[4-النساء:40] ” اللہ تعالیٰ بقدر ایک ذرے کے بھی ظلم نہیں کرتا “۔ اور آیت میں ہے «مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا»[6-الأنعام:160] ” نیکی دس گناہ کر دی جاتی ہے “۔
اور آیت میں ہے «مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً»[2-البقرة:245] ” جو اللہ کو اچھا قرض دے گا، اسے اللہ تعالیٰ بڑھا چڑھا کر زیادہ سے زیادہ کرکے دے گا “۔ فرمان ہے آیت «يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاءُ»[2-البقرة:261] ” وہ بڑھا دیتا ہے جس کے لیے چاہے “۔ یہاں فرمان ہے ” وہ جسے چاہے بے حساب دیتا ہے “۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہا کے پاس ایک مرتبہ دودھ لایا گیا، آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی مجلس کے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو پلانا چاہا مگر سب روزے سے تھے۔ اس لیے آپ رضی اللہ عنہ ہی کے پاس پھر برتن آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت «يَخَافُونَ» سے پڑھی اور پی لیا۔
5947
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن جب کہ اول آخر سب جمع ہونگے، اللہ تعالیٰ ایک منادی کو حکم دے گا جو باآواز بلند ندا کرے گا جسے تمام اہل محشر سنیں گے کہ آج سب کو معلوم ہو جائے گا کہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ بزرگ کون ہے؟ پھر فرمائے گا ” وہ لوگ کھڑے ہو جائیں گے جنہیں لین دین اور تجارت ذکر اللہ سے روکتا نہ تھا “،طپس وہ کھڑے ہو جائیں گے اور وہ بہت ہی کم ہوں گے سب سے پہلے انہیں حساب سے فارغ کیا جائے گا ۔
[الدر المنشور للسیوطی:95/5]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان کی نیکیوں کا اجر یعنی جنت بھی انہیں ملے گی اور مزید فضل الٰہی یہ ہو گا کہ جن لوگوں نے ان کے ساتھ احسان کئے ہوں گے اور وہ مستحق شفاعت ہونگے ان سب کی شفاعت کا منصب انہیں حاصل ہو جائے گا ۔ [طبرانی کبیر:10462:ضعیف]